بڑے عہدوں کے حصول کو بلوچستان کی قسمت کی تبدیلی سمجھنے والے سیاسی احمق ہی ہو سکتے ہیں،سردار اختر جان مینگل

بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی مسلم لیگ (ن) اور ان کے اتحادیوں کے اعمال کا نتیجہ ہے،ہمارے ساحل و وسائل کے اختیارات اہل بلوچستان کو میسر نہیں ہوتے اس وقت تک بڑے سے بڑا عہدہ بلوچستان کی محرومیوں کا خاتمہ نہیں کرسکتے،سربراہ بلوچشتان نیشنل پارٹی

پیر 12 مارچ 2018 23:50

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ پیر 12 مارچ 2018ء) بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ رکن صوبائی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ سینٹ کی چیئرمین شپ ملنے سے بلوچستان کے مسائل اور شورش کا خاتمہ اور حقوق کی جہد کو منزل نہیں مل سکتی بڑے عہدوں کے حصول کو بلوچستان کی قسمت کی تبدیلی سمجھنے والے سیاسی احمق ہی ہو سکتے ہیں بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی مسلم لیگ (ن) اور ان کے اتحادیوں کے اعمال کا نتیجہ ہے دروغ گوئی کیساتھ ووٹ کے تقدس کو پامال کرنے والے اعتماد کے ووٹ کو جمہوری اور عدم اعتماد کے ووٹ کو غیر جمہوری اقدام گردانتے ہیں 2013ء کے انتخابات کے بعد بڑی بڑی وزارتیں اور عہدے حاصل کرنے والے اسٹیبلشمنٹ سے ناجانے کیوں نالاں ہیںہمارے ساحل و وسائل کے اختیارات اہل بلوچستان کو میسر نہیں ہوتے اس وقت تک بڑے سے بڑا عہدہ بلوچستان کی محرومیوں کا خاتمہ نہیں کرسکتے ان خیالات کا اظہار انہوں نے ’’آن لائن‘‘ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ سینٹ کی چیئرمین شپ بلوچستان کو ملنے پر خوشیاں منانے پر حیرانگی ہو رہی ہے کیونکہ صرف چیئرمین شپ ملنا مسائل کا حل نہیں اصل ضرورت اختیارات کی ہے جس کے فقدان کا سامنا رہا ہے یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کو بڑا عہدہ ملا ہو اس سے قبل ملک کا وزیراعظم ‘ صدر ‘ گورنر ‘ وزراء اعلیٰ اور وفاقی وزراء بھی بلوچ رہ چکے ہیں تو کیا ان بڑے عہدوں سے بلوچستان کے حالات بدل گئے جو شورش یہاں پائی جاتی تھی اس کا خاتمہ ہو سکا جن حقوق کے حصول کے لئے سیاسی جمہوری جدوجہد کی جارہی ہے اور آواز بلند کی جارہی ہے کیا اس جدوجہد کو اس کی منزل مل گئی دراصل یہ جدوجہد بڑے عہدوں کے لئے بلکہ اختیارات کے لئے ہے اس سوچ کے خلاف ہے جس سوچ کے تحت 70 سال سے بلوچستان کے وسائل پر قبضہ کرکے اس صوبہ کو ایک کالونی کی حیثیت دی گئی جب تک سوچ میں تبدیلی نہیں آتی اور بلوچستان کے ساحل و وسائل کے اختیارات اہل بلوچستان کو میسر نہیں ہوتے میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت تک بڑے سے بڑا عہدہ بلوچستان کی محرومیوں کا خاتمہ نہیں کرسکتے بے اختیار عہدوں پر خوشیاں منانا سیاسی احمقانہ عمل کے علاوہ اور کچھ نہیں انہوں نے کہا کہ آج بلوچستان کی حکومت میں تبدیلی میں اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ کا واویلا کرنے والے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان ہائوس تبدیلی اسٹیبلشمنٹ نے کروائی ہے تو ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہونگے کہ ان کی حکومت بنائی بھی اسٹیبلشمنٹ نے ہوگی کیونکہ جو بناتے ہیں وہی گراتے ہیں دراصل ان ہائوس تبدیلی کی بنیادی وجہ مسلم لیگ اور اس کے اتحادیوں کے اعمال کا نتیجہ ہے انہوں نے سال 2013ء میں عوام سے کئے گئے جن وعدوں پر ووٹ لیا وہ اس عومی مینڈنٹ کے تقدس کو پامال کرتے رہے دھوکہ دہی اور دروغ گوئی سے محض اپنے مفادات کے حصول میں محروم عمل رہے چار سال کے دوران جو بویا وہی کاٹا اور ہم سمجھتے ہیں یہ ان کی مفادات پرست سیاست کا ردعمل ہے 4 سال کے دوران انہوں نے ہماری جماعت کے ساتھ جو رویہ روا رکھا ہم نے وہ برداشت کیا اور ایک جمہوری عمل کے تحت ان ہائوس تبدیلی کا حصہ بھی بنے مگر یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے اگر ایوان میں انہیں اعتماد کا ووٹ ملا تو وہ جمہوری عمل ہے اور عدم اعتماد کا ووٹ غیر جمہوری عمل ہے یہ دوہرا معیار ان کی سیاست پر لگا وہ دیمک ہے جو انہیں عوام کے سامنے ناکامی سے دوچار کررہا ہے 2013ء کے انتخابات میں جب ہم کہتے تھے کہ نتائج بدلے گئے ہیں تو یہ مامے چاچے بنتے تھے کیونکہ انہیں آشیرباد سے کوئٹہ چاغی کی نشست ملی گورنر شپ ملیں وزارتیں میسر آئیں مگر جب جمہوری اندازمیں ان کے خلاف فیصلہ آیا تو یہ لوگ غیر جمہوری عوامل کا واویلا کررہے ہیں انہوں نے کہا کہ نئی حلقہ بندیوں سے متعلق ہمیں بعض حلقوں پر تحفظات ہیں دراصل بلوچستان کے فیصلے اسلام آباد سے مسلط کئے جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ حلقہ بندیوں کے معاملہ پر بھی یہاں کے جغرافیائی صورت حال کو مدنظر رکھے بغیر فیصلے کئے گئے جن حلقوں پر ہمارے تحفظات ہیں اس سے متعلق اپنے قانونی ماہرین سے رابطے میں ہیں اور جلد فیصلہ کریں گے انہوں نے گزشتہ دنوں میاں محمد نوازشریف کیساتھ ایک جلسہ کے دوران پیش آنے والے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملک میں اصل جمہوری سیاست ہوتی تو ایسے واقعات رونما نہ ہوتے ایسے واقعات کے پیچھے سیاسی قیادت کا ہی قصور ہے کیونکہ اگر اسٹیج پر بیٹھ کر غیر سیاسی زبان کرتے ہوئے لوگوں کو مشعل کیا جائے گا تو کارکن اپنے قائد کی ہی پیروی کرتے ہیں اسٹیج سیاسی جمہوری فکر کی بجائے گالی گلوچ ہو گی تو ورکر اس سے متاثر ہو کر اس طرح کے اقدامات کریں گے آج وقت اور حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ لیڈر شپ اپنے اقدامات اور زبان میں اخلاقیات پیدا کرے تاکہ کارکنوں کی سیاسی نشوونما ہو سکے نہ کہ انہیں اس طرح کے پیغامات دیئے جائیں جس سے وہ سیاسی قیادت کی تضحیک کریں میں سمجھتا ہوں کہ یہاں پہلے ہی سیاسی جمہوری سوچ کو ختم کر دیا گیا ہے اور جب سیاسی ماحول کا خاتمہ ہو گا تو بناوٹی سیاستدان ایسا ہی ماحول پیدا کریں گے دراصل جمہوریت کا تحفظ سیاست سے ممکن ہے اور اگر کسی کو جمہوریت کا مدفن درکار ہوگا تو وہ سیاست کا قتل کردے گا۔

متعلقہ عنوان :