سانحہ قصور میں پانچ سو افراد کا ڈی این اے کرنے کے باوجود کوئی ملزم نہ مل سکا

قصور میں سی سی ٹی وی لگانے کا فیصلہ ، سی سی ٹی وی فوٹیج بنک اور د وکان کے ذریعے ملیں ،قصور میں 6 سالہ زینب کے قتل کے واقعے کے بعد صوبائی حکومت نے قصور میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرکے اس کی مدد سے شہر کی نگرانی کرنے کا فیصلہ کرلیا

جمعرات 18 جنوری 2018 18:14

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعرات 18 جنوری 2018ء) سانحہ قصور میں پانچ سو افراد کا ڈی این اے کرنے کے باوجود کوئی ملزم نہ نکلا ، قصور میں سی سی ٹی وی لگانے کا فیصلہ ، سی سی ٹی وی فوٹیج بنک اور دکان کے ذریعے ملیں ۔ قصور میں 6 سالہ زینب کے قتل کے واقعے کے بعد صوبائی حکومت نے قصور میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرکے اس کی مدد سے شہر کی نگرانی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

تفصیلات کے مطابق بابر نواز کی صدارت میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس منعقد ہوا جس میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری پنجاب، ایڈیشنل انسپکٹر جنرل(آئی جی) پنجاب، ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او قصور شریک ہوئے۔ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ ایمرجنسی کی بنیاد پر قصور میں کیمرے لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ وزیر اعلی پنجاب نے قصور میں کیمرے لگانے سے متعلق منصوبے کی منظوری بھی دے دی گئی۔

(جاری ہے)

ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ ابتدائی طور پر قصور میں 450 کیمرے لگائے جائیں گے اور ان کی مدد سے قصور کے مختلف علاقوں کی نگرانی کی جائے گی جبکہ علاقے میں موجود مشکوک لوگوں پر نظر بھی رکھی جائے گی۔اجلاس کے دوران حکام نے قصور میں قتل ہونے والے 6 سالہ زینب کے افسوسناک واقعے سے متعلق رپورٹ کمیٹی کے سامنے پیش کردی جبکہ اس واقعے کے حوالے سے بریفنگ بھی دی گئی۔

حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ ایک افسوس ناک واقعہ ہے اور متعلقہ حکام اس واقعے میں کچھ بھی چھپانا نہیں چاہتے۔انہوں نے بتایا کہ رواں ماہ 4 جنوری کو ننھی زینب کو اغوا کیا گیا جبکہ اس کی لاش 9 جنوری کو گھر سے کچھ دور ہی ملی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ زینب کا قاتل ایک سلسلہ وار قتل کا حصہ ہے جبکہ قصور شہر میں پیش آنے والے 8 واقعات میں ایک ہی شخص ملوث ہے کیونکہ تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہی شخص بچوں کے ساتھ ریپ کرنے کے بعد انہیں قتل کرتا ہے۔

حکام نے کمیٹی کو بریفنگ کے دوارن یقین دلایا کہ زینب کے قاتل کو ڈی این اے کی مدد سے کچھ روز کے اندر ہی گرفتار کر لیا جائے گاسانحہ کی تحقیقات میں آئی ایس آئی ، آئی ابی ، پولیس حکام آئی ٹی ڈیپارتمنٹ سمیت متعلقہ محکمے کام کر رہے ہیں ۔، ۔حکام نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ پولیس نے زینب کے اغوا کے بعد اس کی بازیابی کے لیے کئی آپریشن کئے جس کے باوجود معصوم بچی بازیاب نہ ہو سکی اور 9 جنوری کو گھر سے تقریبا 5 سو میٹر کے فاصلے پر زینب کی لاش ملی۔

انہوں نے کہا کہ قصور واقعے کے بعد تحقیقات کا دائرہ بڑھایا دیا گیا ہے جبکہ معاملے کی تحقیقات کے لئے 3 مختلف ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔حکام نے بتایا کہ پولیس کسی بھی شخص کو گرفتار کر کے اور اسے دبا میں لاکر اقبالِ جرم کرا سکتی تھی تاہم ایسا نہیں کیا گیا اور اصل ملزم کو ہی گرفتار کرنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔حکام نے کمیٹیکو آگاہ کی اکہ قصور میں بچوں کے ویڈیو سیکنڈل میں تمام ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں ۔

متعلقہ عنوان :