جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں یہ اعتراف کیا ہے کہ اس نے سینکڑوں مبینہ دہشتگرد امریکہ کے حوالے کئے اس کے بعد ایجنسیوں کے زبردستی غائب کئے جانے والے افراد کے کیسوں میں ملوث ہونے میں آسانی ہوگئی اور یہ بیانیہ بن گیا کہ ریاست خود ہی غائب ہونے والے افراد کے معاملے میں شامل ہے،

مشرف کے اس اعترافی بیان کی تحقیقات حیرت انگیز طور پر غائب ہونے والے افراد کا معاملہ سمجھنے میں معاون ہو سکتا ہے، یہ حقیقت کہ تمام ریاستی ادارے بشمول سپریم کورٹ، پارلیمان اور مرکزی اور صوبائی حکومتیں یہ معاملہ حل کرنے میں ناکام ہوگئی ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جو لوگ اس فعل میں ملوث ہیں وہ ریاستی اداروں سے زیادہ طاقتور ہیں اور نظر نہیں آتے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا نیشنل پریس کلب کے سامنے سول سوسائٹی کے مظاہرے سے خطاب

جمعرات 11 جنوری 2018 21:56

اسلام آبا د(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعرات 11 جنوری 2018ء) اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے سول سوسائٹی کے مظاہرے میں خطاب کرتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں یہ اعتراف کیا ہے کہ اس نے سینکڑوں مبینہ دہشتگرد امریکہ کے حوالے کئے۔ اس کے بعد ایجنسیوں کے زبردستی غائب کئے جانے والے افراد کے کیسوں میں ملوث ہونے میں آسانی ہوگئی اور یہ بیانیہ بن گیا کہ ریاست خود ہی غائب ہونے والے افراد کے معاملے میں شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ کہ مشرف کے اس اعترافی بیان کی تحقیقات حیرت انگیز طور پر غائب ہونے والے افراد کا معاملہ سمجھنے میں معاون ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت کہ تمام ریاستی ادارے بشمول سپریم کورٹ، پارلیمان اور مرکزی اور صوبائی حکومتیں یہ معاملہ حل کرنے میں ناکام ہوگئی ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جو لوگ اس فعل میں ملوث ہیں وہ ریاستی اداروں سے زیادہ طاقتور ہیں اور نظر نہیں آتے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جو ریاست کے سکیورٹی بیانیے کو چیلنج کرتے ہیں انہیں خطرہ لاحق ہو جاتا ہے کہ وہ غائب کر دئیے جائیں جبکہ وہ لوگ جو نفرت انگیز تقاریر کرتے ہیں وہ کھلے عام گھوم پھر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاہور کا ایک شخص رضا بھارت کے ساتھ اور مجموعی طور پر پورے خطے میں امن کے لئے کام کر رہا تھا لیکن بھارت کے ساتھ امن ریاست کا موجودہ سکیورٹی بیانیہ نہیں۔

یہ محض اتفاق ہی ہے کہ رضا نامی یہ شخص پراسرار طور پر غائب ہوگیا۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ایکشن این ایڈ آف سول پاور ریزولوشن کا قانون 2011ء میں نافذ کیا گیا تھا جو کہ 2008ء تک موثر بہ ماضی تھا جس سے ریاستی اداروں کو ان لوگوں کو سامنے لانے میں مدد مل سکتی تھی جنہیں ایجنسیوں نے بغیر مقدمہ چلائے حراست میں رکھا ہوا تھا۔ ان لوگوں کو حراستی مراکز میں رکھنا تھا اور ان پر کھلی عدالتوں پر مقدمے چلانے تھے تاہم یہ حراستی مراکز ابو غرید کی طرح کی جیلوں میں تبدیل ہوگئے اور وہاں سے کوئی اطلاع نہیں آئی کہ ان مراکز میں کتنے لوگوں کو کتنے عرصے تک قید رکھا گیا، ان پر کیا مقدمات چلائے گئے اور کتنے لوگ حراست کے دوران ہی جاں بحق ہوگئی انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان حراستی مراکز کی کارکردگی کا تجزیاتی آڈٹ کروایا جائے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ زبردستی غائب کئے جانے کو جرم قرار دیا جائے، زبردستی غائب کئے جانے پر بین الاقوامی کنونشن پر دستخط کئے جائیں اور اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کی سفارشات پر عملدرآمد کیا جائے جس نے 2012ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا اور ریاستی ایجنسیوں کے بارے میں سینیٹ کے مجوزہ بل کوقانون بنایا جائے۔