سزائے موت پر معاشرے کے تمام طبقات اور تمام صوبوں کے لوگوں کو ایک وسیع بحث و مباحثہ کرنا چاہیے،سینیٹر فرحت اللہ بابر

تشدد کے ذریعے حاصل کئے گئے بیان کو غیرقانونی قراردینا چاہیے، فی الوقت 27جرائم میں سزائے موت دی جا سکتی ہے اور اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے،سزائے موت کے خلاف مظاہرے سے خطاب

منگل 10 اکتوبر 2017 20:31

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ بدھ اکتوبر ء)پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ ہمیں سزائے موت پر معاشرے کے تمام طبقات اور تمام صوبوں کے لوگوں کو ایک وسیع بحث و مباحثہ کرنا چاہیے نہ کہ اس موضوع پر صرف سیاستدان اور تجزیہ کاروں کی رائے لی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ابتدا میں سزائے موت ختم کرنا ممکن نہیں تو کم از کم یہ بات یقینی بنائی جائے کہ سزائے موت کے مقدمات میں بنیادی قانون گارنٹی کو یقینی بنایا جائے گا۔

منگل کے روز اسلام آباد میں ایچ آر سی پی کے زیر اہتمام سزائے موت کے خلاف عالمی دن کے موقع پر ایک مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس بات پر کوئی اختلاف رائے نہیں کہ جب تک کوئی شخص مجرم ثابت نہ ہوجائے وہ معصوم ہوتا ہے اور اسے مناسب قانونی دفاع کا حق ہوتا ہے اور تشدد کے ذریعے حاصل کئے گئے بیان کو غیرقانونی قراردینا چاہیے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ کچھ قانون ماہرین نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ کسی کو سزائے موت کی قید اور اسے عملدرآمد کے درمیان مناسب وقفہ ہونا چاہیے تاکہ جلد بازی میں سزائے موت پر عملدرآمد نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ مذہب میں کچھ قوانین ہیں تاہم صرف دو جرائم ایسے ہیں جن میں سزائے موت دی جا سکتی ہے جبکہ فی الوقت 27جرائم میں سزائے موت دی جا سکتی ہے اور اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں امیر اور مراعات یافتہ لوگوں کے لئے سزائے موت تقریباً ختم ہو چکی ہے کیونکہ قصاص اور دیت کو غلط طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشتگردوں کی سزائے موت بھی ختم کر دی گئی ہے حالانکہ ان دہشتگردوں نے لوگوں پر دہشت طاری نہ کرنے سے انکار کر دیا تھا یا ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے پشاور میں آرمی پبلک سکول میں 150بچوں کے قتل کا اعتراف کیا اور انہیں میڈیا کے سامنے لایا گیا تاکہ وہ عوامی ہمدردی حاصل کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ سزائے موت پر پابندی صرف اس صورت میں اٹھائی گئی تھی جس میں مجرم ایک پکا دہشتگرد ہو۔ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ جن سینکڑوں لوگوں کو گزشتہ تین سالوں میں سزائے موت دی گئی ہے ان میں کتنے دہشتگرد تھے اور کتنے عام مجرم ۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمیں کم از کم اس بات پر سوچنا چاہیے کہ کم عمر اور ذہنی بیماروں کے لئے سزائے موت خت کر دی جائے۔ ہمیں یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ جب تک کسی شخص کی اپیل منظور نہ ہو جائے اسے پھانسی کے پھندے تک نہ لے جایا جائے جیسا کہ ؂گزشتہ سال دو بھائیوں کے کیس میں ہوا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔طارق ورک