پنجاب کی عدلیہ کو مثالی جوڈیشری بنا رہے ہیں، آپس میں رابطوںکو موثر اور فعال کیا جا رہا ہے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

ضلعی سطح پر عدلیہ کو مستحکم کرکے پر اعتماد بنایا جا رہا ہے تاکہ وہ بلا خوف و خطر قانون و انصاف کے مطابق فیصلے کرکے حق و انصاف کا بول بالا کریں، جج صاحبان اسی وقت اپنا کام اطمینان اور سکون سے کر سکتے ہیں جب وہ مطمئن اور آسودہ ہوں، جج صاحبان اپنے اہل خانہ کو بھی وقت دیں اور اپنے اپنے طرز عمل ، کردار اور شخصیت سے یہ ثابت کریں کہ جج معاشرے کا باوقار طبقہ ہیں اور وہ اپنے طرز معاشرت میں بھی ایسا معیار قائم کر سکتے ہیں جو دوسروں کے لئے ایک قابل تقلید مثال بن سکتا ہے جسٹس سید منصور علی شاہ کا عشائیے سے خطاب

منگل 10 اکتوبر 2017 23:21

راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ بدھ اکتوبر ء) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ پنجاب کی عدلیہ کو مثالی جوڈیشری بنا رہے ہیں، آپس میں رابطوںکو موثر اور فعال کیا جا رہا ہے، ضلعی سطح پر عدلیہ کو مستحکم کرکے پر اعتماد بنایا جا رہا ہے تاکہ وہ بلا خوف و خطر قانون و انصاف کے مطابق فیصلے کرکے حق و انصاف کا بول بالا کریں، جج صاحبان اسی وقت اپنا کام اطمینان اور سکون سے کر سکتے ہیں جب وہ مطمئن اور آسودہ ہوں، جج صاحبان اپنے اہل خانہ کو بھی وقت دیں اور اپنے اپنے طرز عمل ، کردار اور شخصیت سے یہ ثابت کریں کہ جج معاشرے کا باوقار طبقہ ہیں اور وہ اپنے طرز معاشرت میں بھی ایسا معیار قائم کر سکتے ہیں جو دوسروں کے لئے ایک قابل تقلید مثال بن سکتا ہے۔

(جاری ہے)

وہ منگل کو جوڈیشل کمپلیکس راولپنڈی میں ڈویژنل جوڈیشری کے ایک عشائیے سے خطاب کررہے تھے، جس کا اہتمام ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راولپنڈی سہیل ناصر نے کیا۔ عشائیے میں راولپنڈی ، اٹک جہلم ، چکوال کے اضلاع میں تعینات جج صاحبان ، خواتین ججز اور ان کے اہل خانہ ریٹائرڈ جج صاحبان اور مرحومین جج صاحبان کے اہل خانہ نے شرکت کی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے لطیف پیرائے میں جج صاحبان کے اہل خانہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ڈسٹرکٹ جوڈیشری فٹ نہیں ،بیگمات جج صاحبان کی ڈائٹ کا خیال رکھیں ، سپورٹس کیلئے جانے پر مجبور کریں تاکہ ان کے چہروں پر مسکراہٹ رہے اور وہ ہشاش بشاش رہ کر اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے انجام دے سکیں۔

جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ ایکسرسائز ٹی ٹوینٹی نہیں یہ ٹیسٹ میچ ہے اور باقاعدگی سے ورزش سے ہی صحت اچھی ہوتی ہے -انہوں نے کہاکہ میں باقاعدگی سے گالف کھیلتا ہوں ، ایکسرسائز اور یوگا کرتا ہوں میری طرح جج صاحبان بھی صبح اٹھیں ورزش پر جائیںاس کے لئے ہم انہیں جاگرز اور کٹس بھی فراہم کر سکتے ہیں، جج صاحبان گھروں میں اہل خانہ کو وقت دیں۔

ٹائم مینجمنٹ کریں۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے جج صاحبان کو گاڑیاں فراہم کی ہیں تاکہ وہ کام پر بھی اطمینان سے آئیں اور فیمیلز کو بھی وقت دیں۔ انہوں نے کہاکہ جج صاحبان میںکوئی صنفی تضاد نہیںہونا چاہیے ، مرد اور خواتین ایک جیسے ہیں اور مکمل طور پر آزادانہ ماحول میں کام کریں۔ معاشرے میں صنف کے اعتبار سے کوئی تفاوت نہیں ہونی چاہیے۔انہوں نے کہاکہ جوڈیشری کی ہر کمیٹی اور ہر سرگرمی میں خواتین کو بھر پور نمائندگی دی جا رہی ہے۔

مضبوط فیملی سے مضبوط ادارہ بنتا ہے۔ہم جسٹس سیکٹر سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارا کا م ہے کہ ہم انصاف کریں ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم عدالتوں کے ساتھ اپنی فیملی معاملات میں بھی انصاف کریں تاکہ چائلڈ لیبر یا کسی بھی حوالے سے لوگ ہم پر انگلی نہ اٹھا سکیں- ہم جس علاقے محلے میں رہتے ہیں وہ ہماری پہچان ہونی چاہیے۔ صرف عدالت میں ہی نہیں گھروں میں بھی فیصلے انصاف کے مطابق ہونی چاہییں ۔

انہوں نے کہاکہ ہم اس وقت آپس میں وٹس ایپ پر ہیں۔ ایڈوائزی کمیٹی ، تھنک ٹینکس ہے ،ہم آپس میں سوچ و بچار سے آگے بڑھ رہے ہیں۔تاکہ جوڈیشری کو زیادہ سے زیادہ فعال کیا جاسکے اور اس میں جج صاحبان کے اہل خانہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا سارا وژن پیار و محبت پر مبنی ہے اورباہمی پیار اور احترام کے جذبوں سے کام کرکے ہی مثبت تبدیلی آتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ جج صاحبان سٹاف سے نرمی سے پیش آئیں۔ غصہ ، نفرت اور منفی سوچ ذہن میں نہ لائیں۔ فضول سوچ میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ جس کا جو مقام ہے اسے وہاں تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سید منصور علی شاہ نے کارکردگی کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راولپنڈی سہیل ناصر کی خدمات قابل ستائش ہیں ان کی کاوشوں سے ماڈل کورٹس ، اے ڈی آر ، کیس مینجمنٹ کے بہترین نتائج سامنے آرہے ہیں۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راولپنڈی سہیل ناصر نے خطاب کے دوران کہا کہ ڈویژن کی سطح پر باہمی رابطوںکو موثر بنانے کے لئے متعدد اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ انٹرڈویژنل ای پراسس نیٹ ورک قائم کیا گیا ہے۔ ، سکین پراسس ،آن لائن شہادت سے مقدمات کی سماعت میں تیزی لائی گئی ہے ، کمیونٹی سروسز شروع کی گئی ہیں۔تین ماہ میں ماڈل عدالتوں میں 265 کیسز نمٹائے گئے ہیںجن میںقتل کے کیس بھی شامل ہیں۔سینئر جج محمد فرخ عرفان خان نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ جوڈیشری ایک فیملی کی طرح ہے اور ایسا ماحول فراہم کیا جا رہاہے جس میں جج صاحبان کی فیملیز کومل بیٹھنے کا موقع مل سکے۔ انہوں نے کہاکہ ریٹائرڈ جج صاحبان اور مرحومین کے اہل خانہ کو اکھٹا کرنا قابل تعریف ہے ۔

متعلقہ عنوان :