قومی اسمبلی میں تاریخی انتخاب بل 2017ء کی اتفاق رائے سے منظوری

الیکشن کمیشن کو مکمل مالی اور انتظامی خودمختاری حاصل ہو جائے گی‘ الیکشن کمیشن انتخابات سے چھ ماہ قبل اپنا لائحہ عمل تیار کرے گا‘ ہر مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہوں گی‘ ایک پولنگ سٹیشن سے دوسرے پولنگ سٹیشن کا فاصلہ ایک کلو میٹر سے کم ہوگا ‘ انتخابی اخراجات کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کردی گئی ہے‘ قومی اسمبلی کے امیدوار کیلئے اخراجات کی حد 40 لاکھ ‘ صوبائی اسمبلی 20 لاکھ جبکہ سینٹ کے لئے 15 لاکھ ہوگی

منگل 22 اگست 2017 17:49

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ بدھ اگست ء) قومی اسمبلی نے حکومتی اور اپوزیشن کی بعض ترامیم کے ساتھ تاریخی انتخاب بل 2017ء کی اتفاق رائے سے منظوری دے دی ہے جس کے نافذ العمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کو مکمل مالی اور انتظامی خودمختاری حاصل ہو جائے گی‘ الیکشن کمیشن انتخابات سے چھ ماہ قبل اپنا لائحہ عمل تیار کرے گا‘ ہر مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہوں گی‘ ایک پولنگ سٹیشن سے دوسرے پولنگ سٹیشن کا فاصلہ ایک کلو میٹر سے کم ہوگا‘ انتخابی اخراجات کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کردی گئی ہے‘ قومی اسمبلی کے امیدوار کے لئے اخراجات کی حد 40 لاکھ ‘ صوبائی اسمبلی 20 لاکھ جبکہ سینٹ کے لئے 15 لاکھ ہوگی۔

منگل کو قومی اسمبلی میں اس نئے قانون کی 155 شقیں یکجا کرکے اتفاق رائے سے منظور کرلی گئیں جبکہ بقیہ 86 شقیں بعض ترامیم کے ساتھ منظور کی گئیں۔

(جاری ہے)

اپوزیشن کی جانب سے پیش کی جانے والی اکثر ترامیم کثرت رائے سے مسترد کردی گئیں جبکہ وزیر قانون زاہد حامد کی جانب سے پیش کی جانے والی ترامیم منظور کرلی گئیں۔ اپوزیشن اراکین کی جانب سے بعض ترامیم واپس بھی لے لی گئیں۔

نئے قانون کے مطابق نامزدگی فارم کو سادہ بنایا گیا ہے۔ ایک رکن کی جانب سے دولت گوشوارہ جمع کرانے کے لئے وہی فارم ہوگا جیسا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے تحت جمع کرایا جاتا ہے۔ انتخابی تنازعات نمٹانے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوگی۔ ہر ضلع کے لئے الیکشن کمیشن کی جانب سے تشکیل کردہ حلقہ بندی کمیٹی کی جانب سے مقامی حکومت کی حلقہ بندیاں کی جائیں گی۔

نگران حکومت کے فرائض کو روزانہ کے معمولات غیر متنازعہ معاملات تک محدود کردیا گیا ہے ماسوائے ضروری معاملات کے یہ بڑے پالیسی فیصلے نہیں کرے گی۔ تمام سیاسی جماعتیں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی عمومی نشستوں پر 5 فیصد ٹکٹ خواتین کو دینے کی پابند ہوں گی۔ خواتین کو انتخابی عمل میں زیادہ سے زیادہ شریک کرنے کے لئے آگاہی مہم چلائی جائے گی۔

اگر کسی حلقے میں کل ڈالے گئے ووٹوں کا دس فیصد سے کم خواتین کے ووٹ پول ہوئے تو وہاں پر تحقیقات کرائی جائیں گی کہ یہاں کوئی معاہدہ تو نہیں کیا گیا یا خواتین پر ووٹ ڈالنے کی پابندی تو عائد نہیں کی گئی۔ اگر ایسا ثابت ہوا تو متعلقہ پولنگ سٹیشنوں یا پورے حلقے کا انتخاب کالعدم قرار دیا جائے گا۔ سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کے لئے لازم ہوگا کہ اس کے ممبران کی تعداد 2000 ہو جبکہ رجسٹریشن فیس 1 لاکھ روپے ہوگی۔

کسی بھی سیاسی جماعت کو ممنوعہ ذرائع سے فنڈز لینے پر پابندی ہوگی۔ ایک لاکھ سے زائد چندہ دینے والے افراد کی فہرست کمیشن کو مہیا کی جائے گی۔ کوئی بھی سیاسی جماعت جس کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ اس نے غیر ملکی امداد حاصل کی ہے یا وہ بیرونی فنڈز سے تشکیل دی گئی ہے یا وہ پاکستان کی خودمختاری یا سالمیت کے خلاف کام کر رہی ہے یا دہشت گردی میں ملوث ہے تو اس کے بارے میں حکومت سرکاری جریدے میں نوٹیفکیشن کے ذریعے اس کو تحلیل کرنے کا اعلامیہ جاری کرے گی۔

حکومت 15 دن کے اندر یہ معاملہ سپریم کورٹ کو بھجوائے گی۔ اگر سپریم کورٹ ذیلی دفعہ ایک کے تحت سیاسی جماعت کے خلاف اعلامیہ کو برقرار رکھتی ہے تو مذکورہ سیاسی جماعت تحلیل متصور ہوگی اور ایسی صورت میں اس کے مجلس شوریٰ‘ صوبائی اسمبلیوں یا مقامی حکومتوں میں موجود اراکین بھی نااہل تصور ہوں گے۔ سیاسی جماعتوں کے لئے مختص انتخابی نشانات ایک دوسرے سے قطعی طور پر مختلف ہوں گے۔

ہر مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں کی جائیں گی۔ ایک صوبے میں ایک حلقے سے دوسرے حلقے میں ووٹوں کا تناسب دس فیصد سے زائد نہیں ہوگا۔ امیدواروں کو ووٹروں کی تصاویر پر مشتمل انتخابی فہرستیں فراہم کی جائیں گی۔ انتخابی مبصرین کو پولنگ سٹیشن ووٹوں کی گنتی اور نتائج کی تیاری تک رسائی دے کر انتخابات کے انعقاد کے عمل کا مشاہدہ کرنے کی اجازت الیکشن کمیشن اپنے طور پر دے سکتا ہے۔

کمیشن سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت سے سیاسی جماعتوں‘ امیدواروں‘ پولنگ ایجنٹوں‘ سیکیورٹی عملہ‘ میڈیا اور مبصرین کے لئے ضابطہ اخلاق مرتب کرے گا۔ انتخابی مہم کی نگرانی کے لئے ایک نگران ٹیم تشکیل دی جائے گی جو باقاعدہ بنیاد پر اپنی رپورٹ کمیشن کو دے گی۔ کمیشن کا کوئی ملازم اگر سرکاری معلومات یا ڈیٹا کو کمیشن کی جانب سے اختیار دیئے جانے کے بغیر کسی فرد کو فراہم کرتا ہے ‘ انتخابی فہرستوں کی ڈیٹا بیس میں شامل کسی معلومات یا ڈیٹا کی سیکیورٹی کی خلاف ورزی کرتا ہے یا اس کا غلط استعمال کرتا ہے تو اسے ایک سال قید یا ایک لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکیں گی۔

پولنگ سٹیشن پر حملہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے‘ ہتھیاروں کی نمائش‘ انتخابی عمل میں خلل ڈالنے‘ پریزائیڈنگ آفیسر یا پولنگ عملے کے اغواء کی کوشش یا بیلٹ باکس یا بیلٹ پیپر چھیننے کی کوشش پر پریزائیڈنگ آفیسر ریٹرننگ آفیسر کو واقعہ کی تحریری رپورٹ کرے گا اور مبینہ قصور وار کے خلاف مقدمہ کے اندراج کے لئے ضلعی پولیس کے سربراہ کے سپرد معاملہ کیا جائے گا۔

انتخابی عملہ یا سیکیورٹی پر مامور اہلکار اگر کسی فرد کو رائے دہی کی ترغیب دیتا ہے ‘ انتخابی نتیجے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ پولنگ سٹیشن سے بیلٹ پیپر باہر لے جانے‘ بیلٹ پیپر خراب کرنے‘ جعلی بیلٹ پیپر بنانے پر اگر انتخابی عملہ جرم کا مرتکب پایا گیا تو اسے چھ ماہ کی قابل توسیع مدت قید یا ایک لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکیں گی۔

خلاف ضابطہ کام کے جرم کا مرتکب شخص تین سال کی قابل توسیع مدت قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے یا دونوں مستوجب ہوگا۔ اگر کسی حلقے میں دو امیدواروں کے درمیان ووٹ برابر ہوں تو انہیں آدھی آدھی مدت کے لئے منتخب تصور کیا جائے گا۔ پہلی مدت کے لئے قرعہ اندازی سے فیصلہ کیا جائے گا۔ الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف 30 یوم میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جاسکے گی جبکہ مقامی حکومت کے انتخاب پر ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف اپیل ہائی کورٹ میں دائر کی جاسکے گی۔

انتخابی اخراجات کے لئے ایک الگ سے بنک اکائونٹ کھولا جائے گا۔ انتخابات کے نتائج کے اجراء کے 30 دن کے اندر کامیاب امیدوار کے علاوہ تمام امیدواروں کی جانب سے انتخابی اخراجات کا گوشوارہ جمع کرانا لازمی ہوگا۔ نامزدگی کے بعد اگر کوئی امیدوار وفات پا جاتا ہے تو اس حلقے میں انتخاب ملتوی کردیا جائے گا۔ ہر حلقے سے خواتین اور مردوں کے ڈالے گئے ووٹوں کے تناسب کے الگ الگ گوشوارے بھی مرتب کئے جائیں گے۔

اگر کسی حلقے میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی شکایات ہوں تو مجاز افسر یہاں پر پولنگ روک سکے گا۔ حساس پولنگ سٹیشنوں کے اوپر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے جائیں گے۔ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کے اجراء کے ساتھ ہی اس فرد کا ووٹر فہرست میں نام بھی درج ہو جائے گا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی روز ہوں گے۔ رائے دہی کے اوقات کم سے کم آٹھ گھنٹے تک ہوں گے۔

کمیشن انتخابی فہرستوں میں غیر مسلموں‘ معذور اشخاص اور ہم جنس شہریوں کی رجسٹریشن کے لئے خصوصی اقدامات اٹھائے گا۔ ایک شخص کا ووٹ ایک ہی جگہ پر درج ہوگا۔ کمیشن ہر سال کے اختتام کے 90 ایام کے اندر اپنی سالانہ سرگرمیوں کی رپورٹ شائع کرے گا۔ وفاقی حکومت اور ہر ایک صوبائی حکومت کو اس کی کاپی ارسال کی جائے گی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں یہ رپورٹ دو ماہ کے اندر اپنے اپنے متعلقہ ایوانوں میں پیش کریں گی۔

عام انتخابات کے انعقاد سے کم سے کم چھ ماہ قبل حلقہ بندیاں‘ انتخابی فہرستوں پر نظرثانی‘ سیاسی جماعتوں کے اندراج‘ نشانات متعین کرنے‘ انتخابی عملہ کے تقرر‘ پولنگ سٹیشنوں کی حلقہ وار فہرست‘ انتخابی عملے کی فہرست‘ انتخابی نتائج کے لئے شفاف نتیجے کے انصرام کے نظام کے قیام ‘ کسی بھی نئی ٹیکنالوجی کے تعارف‘ انتخابی مبصرین کے لئے انتظامات‘ انتخابی ٹریبونلز کا تقرر‘ سیکیورٹی کے اقدامات سمیت تمام امور کو حتمی شکل دی جانی لازمی ہوگی۔

اس نئے قانون کے تحت انتخابی شیڈول کے اجراء سے پولنگ تک کوئی بھی سیاسی جماعت پانچ کروڑ روپے سے زائد کے اخراجات نہیں کر سکے گی۔ الیکشن کمیشن کے پاس عدالت عالیہ کی طرح توہین پر سزا دینے کا اختیار حاصل ہوگا۔ واضح رہے کہ تقریباً اڑھائی سال قبل سینیٹر اسحاق ڈار کی سربراہی میں 33 رکنی پارلیمانی انتخابی اصلاحات کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کی مختلف ذیلی کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں جبکہ زاہد حامد کی سربراہی میں قائم ذیلی کمیٹی کے 93 اجلاس ہوئے جبکہ پارلیمانی کمیٹی کے 25 اجلاس منعقد ہوئے۔

اس طرح کل 118 اجلاس منعقد ہوئے۔ ان اجلاسوں میں پارلیمان‘ وکلاء‘ سول سوسائٹی سمیت دیگر ذرائع سیموصول ہونے والی 631 مختلف تجاویز پر غور کیا گیا۔ نئے انتخابی قانون میں انتخابات سے متعلقہ پرانے آٹھ قوانین جن میں الیکٹورل رول ایک مجریہ 1974، انتخابی حلقہ بندیوں سے متعلق ڈی لمیٹیشن آف کونسٹی ٹونسی ایکٹ 1974، سینیٹ الیکش ایکٹ 1975، ریپریزنٹیشن آف پیپلز ایکٹ 1974، الیکشن کمیشن آرڈر سنہ 2002، عام انتخاب کے انعقاد سے متعلق 2002 کا قانون اور پولیٹکل پارٹی آرڈر سنہ 2002 شامل ہیں ‘ کو یکجا کرکے یہ قانون بنایا گیا ہے۔

نئے انتخابی قانون کے کل پندرہ ابواب ہیں جبکہ اس کی 241 شقیں ہیں۔ حکومت اوراپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے کی حامل 155 شقوں کو یکجا کرکے منظور کرایا گیا جبکہ باقی شقوں پر حکومتی اور اپوزیشن کی جانب سے ترامیم پیش کی گئیں جن میں سے بعض ترامیم منظور کرلی گئیں اور اکثر کو مسترد کردیا گیا۔ کل 105 ترامیم موصول ہوئی تھیں جن میں سے حکومت نے 44 کو شامل کرلیا تھا۔

سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیئے جانے‘ بائیو میٹرک اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کا معاملہ الیکشن کمیشن پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ انتخابی قانون میں بعض نئی شقیں بھی شامل کی گئی ہیں جن میں پریزائیڈنگ آفیسر کی جانب سے امیدواروں کے ایجنٹوں کو فراہم کئے جانے والے نتائج پر اس کا انگوٹھا اور مہر ثبت ہوگی جبکہ انتخابی اخراجات کے حوالے سے ایک نئی شق شامل کی گئی ہے جس کے مطابق کسی امیدوار کا کوئی حامی اگر اس کے نام کے پوسٹر یا دیگر انتخابی اخراجات کرتا ہے تو اس کا جوابدہ وہ امیدوار نہیں ہوگا۔