دہشتگرد وں کی حمایت کرتے تو ہمارے 73ہزار شہریوں ،ْ سکیورٹی اہلکاروں کی جان کیوں لی جاتی ترجمان پاک فوج نے الزام مسترد کر دیا

امریکی فوجی افسران ،ْ اہلکاروں کو حالیہ دورہ پاکستان کے دور ان حقانی نیٹ ورک کے خلاف اقدامات کے شواہد فراہم کئے گئے تھے ،ْافغانستان اور پاکستان مذاکرات کے ذریعے ہی تمام مسائل کا حل ڈھونڈ سکتے ہیں ،ْسرحدی میکنزم کا مقصد صرف اور صرف دہشتگردوں کو دونوں ممالک میں داخل ہونے سے روکنا ہے ،ْ افغانستان کو اس پر تحفظات ہیں تو ہمیں بتایا جائے کہ تیسرا راستہ کونسا ہے جس سے غیر قانونی آمدورفت روکی جاسکے ،ْ افغانستان رضا مندہو تو سرحد پر پاکستانی سائیڈ کی طرح افغان سائیڈ پر بھی باڑ اور قلعے لگانے کو تیار ہیں ،ْ بھارت ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے ،ْ میجر جنرل آصف غفور کی افغان کے صحافیوں کو بریفنگ

منگل 22 اگست 2017 17:53

اولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ بدھ اگست ء)پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے پاکستان پر دہشتگردوں کی حمایت کا الزام مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ اگر پاکستان دہشتگردوں کی حمایت کرتا تو پھر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہمارے 73ہزار شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں کی جان کیوں لی جاتی امریکی فوجی افسران اور اہلکاروں کو حالیہ دورہ پاکستان کے دور ان حقانی نیٹ ورک کے خلاف اقدامات کے شواہد فراہم کئے گئے تھے ،ْافغانستان اور پاکستان مذاکرات کے ذریعے ہی تمام مسائل کا حل ڈھونڈ سکتے ہیں ،ْسرحدی میکنزم کا مقصد صرف اور صرف دہشتگردوں کو دونوں ممالک میں داخل ہونے سے روکنا ہے ،ْ افغانستان کو اس پر تحفظات ہیں تو ہمیں بتایا جائے کہ تیسرا راستہ کونسا ہے جس سے غیر قانونی آمدورفت روکی جاسکے ،ْ افغانستان رضا مندہو تو سرحد پر پاکستانی سائیڈ کی طرح افغان سائیڈ پر بھی باڑ اور قلعے لگانے کو تیار ہیں ،ْ بھارت ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے۔

(جاری ہے)

منگل کو آئی ایس پی آر میں افغان صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوںنے کہاکہ ہمیں منفی چیزوں کی بجائے مثبت چیزوں پر توجہ دینی چاہیے ،ْمیں نے کبھی بھی بحیثیت فوجی ترجمان افغان فوج یا افغان حکومت کے خلاف بیان نہیں دیا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ میڈیا کو دونوں ممالک کے درمیان پل کا کر دار ادا کر ناچاہیے ،ْ آپ یہاں موجود ہیں اور آپ جس چیز کا بھی پاکستان میں خود مشاہدہ کرتے ہیں ہماری درخواست ہے آپ افغانستان جا کر لوگوں سے ضرور اس کا ذکر کریں ۔

انہوںنے کہاکہ میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ پاکستان میں آپ جہاں بھی جاناچاہتے ہیں ہم آپ کو لے جانے کیلئے تیار ہیں تاکہ آپ خود ہر چیز دیکھ سکیں ۔انہوںنے کہاکہ سرحدیں بند کر نا اچھا اقدام نہیں ہے اور نہ ہی مسائل کا حل ہے ایسے فیصلوں سے پاکستان کو بھی نقصان ہوتا ہے ۔انہوںنے کہاکہ پاکستان نے سرحد پر جو میکنزم قائم کیا ہے اس کا مقصد پر امن لوگوں کو سرحد پار کر نے میں مدد فراہم کر نا ہے اس میکنزم کا مقصد صرف اور صرف دہشتگردوں کو دونوں ممالک میں داخل ہونے سے روکنا ہے ۔

انہوںنے کہاکہ اگر افغانستان کو اس نظام پر تحفظات ہیں تو ہمیں بتایا جائے ،ْکونساتیسرا راستہ ہے کہ سرحد پر غیر قانونی آمدورفت کو روکا جائے ۔ایک سوال پر فوجی ترجمان نے کہاکہ پاک افغان سرحد پر آمدورفت کے بند راستے چھ سے نو ماہ میں کھول دیئے جائینگے ،ْ ابھی ان جگہوں پر طور خم اور چمن کی طرح آلات لگائے جارہے ہیں جب یہ کام مکمل ہو جائے تو باقی راستے بھی کھول دیئے جائینگے ۔

انہوںنے کہاکہ پاکستان کی جانب سے سرحد پر نگرانی کا نظام قائم کر نے سے سرحد پار سے حملوں میں بہت کمی ہوئی ہے پہلے تقریباً 150 دہشتگردوں پر مشتمل گروپ افغانستان سے پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملے کر تے تھے لیکن گزشتہ تین سالوں میں اس طرح کے حملوں کی کوششوں میں کمی آئی ہے انہوںنے کہاکہ پاکستان نے اپنی سائیڈ پر بہت سی چیک پوسٹیں قائم کی ہیں اور ہمیں امید ہے کہ افغانستان بھی سرحد کی نگرانی کیلئے اپنی جانب ایسے اقدامات اٹھائیگا ۔

انہوںنے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے پر الزامات سلسلہ بند کر نا چاہیے ۔میجر جنرل آصف غفور نے کہاکہ پاکستان نے کبھی بھی افغان حکومت یا فوج پر پاکستانی دہشتگردوں کی حمایت کا الزام نہیں لگایا بلکہ پاکستان کہتا رہا ہے کہ دہشتگردوں نے افغان سر زمین کو استعمال کر کے پاکستان پر حملہ کیا ۔انہوںنے کہاکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ مولوی فضل اللہ افغانستان میں موجود ہے اور وہاں وہ پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری لیتا ہے لیکن ہم یہ نہیں کہتے کہ افغان حکومت ان حملوں میں ملوث ہے لیکن پاکستان کا موقف یہ ضرور ہے کہ بھارت ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے ۔

آئی ایس پی آر کے ترجمان نے کہاکہ افغان حکومت نے پاکستان کو جن 64مطلوب افراد کی فہرست دی تھی اس میں شامل حقانی نیٹ ورک کے سات اراکین افغانستان میں مارے گئے ہیں ۔ہماری انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق اس فہرست میں درجنوں شدت پسند افغانستان میں موجود ہیں اور کئی مارے گئے ہیں ۔انہوںنے پاکستان پر دہشتگردوں کی حمایت کا الزام مسترد کرتے ہوئے کہاکہ اگر پاکستان دہشتگردوں کی حمایت کرتا تو پھر اس جنگ میں ہمارے 73ہزار شہریوں اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی جان کیوں لی جاتی انہوںنے افغانستان کے ساتھ مذاکرات پر زور دیتے ہوئے کہاکہ دونوں ممالک مذاکرات کے ذریعے ہی تمام مسائل کا حل ڈھونڈ سکتے ہیں ۔

انہوںنے کہاکہ پاکستان اور بھارت میں بہت فرق ہے اگر مذہبی لحاظ سے دیکھا جائے تو ہم گائے کا گوشت کھاتے ہیں اور بھارت میں اس کی عبادت کی جاتی ہے ۔حقانی نیٹ ورک کے بارے میں انہوںنے کہاکہ شمالی وزیرستان آپریشن کے بعد اس نیٹ ورک کا وہاں سے صفایا کیا گیا ہے فوجی آپر یشنز سے پہلے پاکستان کے قبائلی علاقے اور مالا کنڈ ڈویژن ٹی ٹی پی کے زیر اثر تھے لیکن اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں انہوںنے کہاکہ قبائلی علاقوں میں اس وقت پاکستان کے تقریباً دو لاکھ بیس ہزار سکیورٹی اہلکار موجود ہیں جبکہ 2001میں یہ تعداد 34000تھی ۔

انہوںنے ایک مرتبہ پھر پاکستان فوج کی جانب سے افغان سکیورٹی فورسز کو اپنے مراکز میں تربیت دینے کی پیشکش کی انہوںنے کہاکہ پاکستانی فوج کے سربراہ نے افغان حکومت کو پیشکش کی ہے کہ جس طرح ہم اپنی سائیڈ پر باڑ لگا رہے ہیں اور قلعے قائم کئے ہیںاگر افغان حکام راضی ہوں تو اسی طرح کانظام افغانستان میں بنانے کیلئے تیار ہیں حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے افغان صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ترجمان پاک فوج نے کہاکہ امریکی فوجی افسران اور اہلکاروں کے حالیہ دورہ پاکستان کے دور ان انہیں حقانی نیٹ ورک کے خلاف اقدامات کے حوالے سے شواہد فراہم کئے گئے تھے ۔

انہوںنے بتایا کہ پاکستان نے کئی اقدامات اٹھائے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔انہوںنے کہاکہ امریکی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک یا کسی اور گروپ کے درمیان مواصلاتی رابطوں کا پتہ لگا سکتی ہے ۔وہ اس بات کی گواہی دینگے کہ اس گروپ کی سرگرمیاں تقریباً ختم ہو گئی ہیں انہوںنے کہاکہ حقانی نیٹ ورک کے بارے میں پاکستان کی حمایت کا تاثر مضحکہ خیز ہے ۔

فوجی ترجمان نے کہاکہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان براہ راست اور آزادانہ تعلقات ہونے چاہئیں ۔افغانستان پاکستان کو کسی اور کی نظروں سے نہ د یکھے ۔پاکستان اور افغانستان کو یہاں رہناہے اور بھارت اور دیگر یہاں سے چلے جائینگے ۔ہم افغانستان کو کسی اور کی نظروں سے نہیں دیکھتے ۔