کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کو قوانین کی بہتری کیلئے 1800 سے زائد تجاویز موصول ،ْپانچ سیاسی جماعتوں نے اپنے اختلافی نوٹس دیئے ہیں ،ْوزیر خزانہ

ستمبر تک اگر نیا قانون نہ بنا تو آئندہ الیکشن پرانے قانون کے تحت ہوں گے ،ْ سینیٹر اسحاق ڈار قومی اسمبلی سے بل منظور ہو کر جب سینیٹ میں آئیگا تو سینیٹ کے ارکان بھی اپنی آراء دے سکتے ہیں ،ْخطاب پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات میں نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان کو شامل نہ کرنے کے حوالے سے وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں ،ْرضا ربانی

جمعرات 10 اگست 2017 21:23

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعہ اگست ء)وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے سینٹ کو بتایا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کو انتخابی قوانین کی بہتری کیلئے 1800 سے زائد تجاویز موصول ہوئیں، پانچ سیاسی جماعتوں نے اپنے اختلافی نوٹس دیئے ہیں ،ْستمبر تک اگر نیا قانون نہ بنا تو آئندہ الیکشن پرانے قانون کے تحت ہوں گے۔

جمعرات کو سینٹ میں اجلاس کے دور ان انتخابی اصلاحات سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ پیش کرنے کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ 19 جون 2014ء کو قومی اسمبلی اور 30 جون 2014ء کو انتخابی اصلاحات سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے لئے قراردادیں منظور کی گئیں ،ْ24 جولائی 2014ء کو کمیٹی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے سول سوسائٹی، وکلاء، پاکستان بار کونسل، صوبائی بار کونسل، عام لوگوں، سپریم کورٹ بار، ارکان پارلیمنٹ اور میڈیا سے تجاویز حاصل کیں، 1200 تجاویز موصول ہوئیں۔

ایک عبوری رپورٹ پہلے پیش کی گئی، ایک آئینی ترمیم کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کے نئے ارکان تعینات کئے گئے۔ دوسری رپورٹ دونوں ایوانوں میں پیش کی گئی۔ کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی تھی۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے دور میں 631 تجاویز اور کمنٹس بھی آئے جن میں کئی پرانی تجاویز بھی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کے تمام 8 قوانین کو بہتر بنانا تھا۔

اس حوالے سے بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ،ْ آئینی ترامیم کی بھی تجاویز آئی ہیں جو ضروری تقاضے پورے کرنے کے بعد ہوں گی، اس پر کام کرنا باقی ہے۔ الیکشن کمیشن کے حکام نے بتایا کہ اگر ستمبر تک نیا قانون نہ بنا تو پھر آئندہ الیکشن پرانے قانون کے مطابق ہی ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ کے الیکشن، فاٹا کے الیکشن اور نگران حکومت کے قیام کے حوالے سے بھی معاملات طے کرنے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی کمیٹی کے 26 اور ذیلی کمیٹی کے 93 اجلاس ہوئے۔ 19 جولائی کو حتمی رپورٹ رولز کے مطابق منظور کی گئی۔ چار اختلافی نوٹس بھی موصول ہوئے ہیں، وہ بھی رپورٹ میں شامل کرلئے گئے ہیں۔ 26 جولائی کو سید نوید قمر نے پیپلز پارٹی کی طرف سے اختلافی نوٹ دیا جس میں انہوں نے پانچ نکات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہوگی کہ بل جلد سے جلد منظور ہو جائے تاکہ آئندہ الیکشن پرانے قانون کی بجائے نئے قانون کے مطابق ہی ہوں۔

اجلاس کے دور ان سینیٹر میر کبیر کے نکتہ ء اعتراض کے جواب میں اسحاق ڈار نے کہا کہ کمیٹی کے جو بھی ارکان مقرر کئے گئے تھے، انہوں نے اپنی تجاویز دی ہیں۔ ہم نے ان پر غور کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی سے بل اگر منظور ہو کر جب سینیٹ میں آئے گا تو اس میں سینیٹ کے دیگر ارکان بھی اپنی آراء دے سکتے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات میں نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان کو شامل نہ کرنے کے حوالے سے وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں۔

سینیٹر میر کبیر کے نکتہ ء اعتراض کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی تھی تاہم اگر نیشنل پارٹی کے ارکان کو شامل نہیں کیا گیا تو یہ ان کی غلطی ہے، جسے وہ تسلیم کرتے ہیں۔