ملک کے اہم ترین پانامہ کیس کا تاریخی فیصلہ (آج) دن ساڑھے 11بجے سنایا جائے گا، ضمنی کاز لسٹ جاری ،جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل ، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس شیخ عظمت سعید اورجسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل لارجر بنچ فیصلہ سنائے گا ، سپریم کورٹ کی عمارت سمیت ریڈزون میں سیکیورٹی کے انتہائی سخت اقدامات

عدالت نے پانامہ کیس کا فیصلہ 21جولائی کو محفوظ کیا، جے آئی ٹی نی10جولائی کو اپنی رپورٹ پیش کی تین نومبر2016 کو پاناما لیکس میں سامنے آنے والے الزامات کی باقاعدہ سماعت شروع ہوئی ،31 دسمبرکوچیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سبکدوشی کے باعث سماعت جنوری 2017کے پہلے ہفتے تک ملتوی ہوئی ،فروری کے آغاز میںبینچ کے رکن جسٹس عظمت سعیدشیخ کی طبیعت ناساز ہونے پر سماعت دو ہفتے تک ملتوی رہی ،15فروری سے مقدمہ دوبارہ سنا گیا پاناما دستاویزات بارے وزیراعظم نواز شریف سمیت چھ افراد کی نااہلی سے متعلق درخواستوں پر 23 فروری کو محفوظ کیا جانے والا فیصلہ 20 اپریل کو سنایا گیا، اس کے تحت جے آئی ٹی بنی ، 8مئی کو پہلااجلاس ہوا ، وزیراعظم ، ان کے بیٹے ،بیٹی ، قریبی عزیز طارق شفیع ،اسحاق ڈار ، رحمان ملک ، صدر نیشنل بینک ، چیئرمین ایس ای سی پی اور دیگرکئی اداروں کے عہدیدار پیش ہوئے، جے آئی ٹی 10جولائی کو رپورٹ پیش کرکے تحلیل ہوگئی ، سپریم کورٹ نے کیس کی چند سماعتوں کے بعد فیصلہ محفوظ کیا

جمعرات 27 جولائی 2017 21:39

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعہ جولائی ء) ملک کے اہم ترین پانامہ کیس کا تاریخی فیصلہ (کل) جمعہ کو دن ساڑھے 11بجے سنایا جائے گا، اس سلسلے میں ضمنی کاز لسٹ جاری کردی گئی ۔ جمعرات کو سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامئے کے مطابق تفصیلات کے مطابق (آج ) جمعہ کو دن ساڑھے گیارہ بجے پانامہ کیس کا فیصلہ سنایا جائے گا ۔

اس سلسلے میں ضمنی روسٹر جاری کردیاگیا۔ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لاجز بینچ سنائے گا ۔ لاجز بینچ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ ، جسٹس اعجاز افضل ، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس شیخ عظمت سعید اورجسٹس اعجاز الاحسن شامل ہیں ۔ پانامہ کیس کا فیصلہ تین رکنی عمل درآمد بینچ نے 21جولائی کو محفوظ کیا تھا ۔ بینچ کی سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کریں گے ۔

(جاری ہے)

پاناما کیس کے لیے بننے والی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے 10 جولائی کو اپنی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی جس پر عدالت عظمی نے 17 جولائی کو سماعت کی اور پھر سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے پاناما کیس کا فیصلہ 21 جولائی کو محفوظ کیا تھا۔پاناما کیس کے فیصلے کے موقع پر سپریم کورٹ کے باہر اور ریڈ زون میں سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے ہیں اور صرف متعلقہ افراد کو ہی سپریم کورٹ میں آنے کی اجازت دی جائے گی۔

اضافی دستے ریڈزون میں پہنچ گئے ۔وزارت داخلہ کی طرف سے براہ راست سیکیورٹی انتظامات کی نگرانی کی جا رہی ہے ۔ تفصیلات کے مطابق پانامہ سکینڈل پر سپریم کورٹ کی طرف سے آج فیصلہ سنائے جانے کے پیش نظر اسلام آباد کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے ۔ تمام تھانوں کو الرٹ کردیا گیا ہے اور سیکیورٹی اہلکاروں کے گشت میں بھی اچانک اضافہ ہوگیا ۔ گزشتہ شام اسے ریڈزون کی شاہراہ دستور سمیت وفاقی دارالحکومت کی اہم شاہراہوں پر رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گاڑیوں کا گشت شروع ہوگیا جبکہ اضافی ریڈ زون میں پہنچا دیے گئے ہیں ۔

شاہراہ دستور اور تمام اطراف میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ۔ غیر متعلقہ افراد آج ریڈ زون میں داخل نہیں ہو سکیں گے اور شاہراہ دستور پر واقع دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین اور دیگر افراد کی بھی خصوصی چیکنگ کی ہدایت کردی گئی۔ شاہراہ دستور پر واقع تمام قومی عمارتوں بشمول پارلیمنٹ ہائوس ، وزیراعظم ہائوس، سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں ۔

کسی بھی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چوکس رہنے کی ہدایت کردی گئی ۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ریڈ الرٹ جاری کر دیا گیا، پولیس، رینجرز اور ایف سی کی نفری تعینات کر دی گئی۔ قبل ازیں سپریم کورٹ نے ججوں کی ڈیوٹی کا نیا روسٹر جاری کیاتھا جس کے مطابق سپریم کورٹ میں تین بینچ مقدمات کی سماعت کریں گے۔

اس ڈیوٹی روسٹر کے مطابق وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے خلاف پاناما لیکس پر عمل درآمد سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ میں سے دو جج صاحبان سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں 11 اگست تک مقدمات کی سماعت کریں گے۔روسٹر کے مطابق جسٹس عظمت سعید شیخ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں مختلف مقدمات کی سماعت کریں گے۔اس بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن اگلے ہفتے چھٹیوں پر چلے جائیں گے۔

پانامہ کیس کی تاریخ کی طرف دیکھیں تو تقریبا ًسوا سال برس قبل پاناما لیکس میں وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے نام سامنے آئے اور اس وقت سے یہ معاملہ ملک کے سیاسی منظر نامے میں چھایا رہا۔ پاناما لیکس پر حزب اختلاف کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ سامنے آیا لیکن انھوں نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تحقیقاتی کمیشن کے ضوابطِ کار کی تشکیل کے لیے بھی طویل نشستیں ہوئیں لیکن کوئی حل نہ نکل سکا۔ضوابطِ کار کا معاملہ کسی نتیجے پر نہ پہنچنے پر حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف سڑکوں پر نکل آئی اور دو نومبر کو اسلام آباد کو بند کرنے کا کال سے پہلے پکڑ دھکڑ اور جھڑپوں کے دوران یکم نومبر کو سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے پاناما لیکس کے تحقیقات کے لیے تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے پر اتفاق کر لیا۔

تین نومبر کو پاناما لیکس میں سامنے آنے والے الزامات کی باقاعدہ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ تحقیقاتی کمیشن کا کسی جماعت کے ضوابطِ کار پر متفق ہونا ضروری نہیں جبکہ آئندہ سماعت میں یہ واضح کر دیا کہ ان فی الحال ان کی ترجیح وزیر اعظم کے خلاف الزامات کو ہی دیکھنا اور متعلقہ شواہد کا جائزہ لینے کے بعد ہی عدالت یہ فیصلہ کرے گی کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دیا جائے یا نہیں۔

پندرہ نومبر کو سماعت نے ایک نیا موڑ لیا جس میں وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ نے قطر کے شاہی خاندان کے رکن حمد جاسم کی جانب سے پانچ نومبر کو تحریر کردہ ایک خط عدالت میں پیش کیا جس کے مطابق شریف خاندان نے 1980 میں الثانی گروپ میں ریئل اسٹیٹ میں جو سرمایہ کاری کی تھی بعد میں اس سے لندن میں چار فلیٹ خریدے گئے تھے۔ تحریک انصاف کی جانب سے سینکڑوں دستاویزات عدالت میں جمع کرائی گئیں ۔

30 نومبر کی سماعت میں تحریکِ انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت کے سامنے مریم نواز اور حسن نواز کے ٹی وی انٹرویوز کا حوالہ پیش کیا ۔نومبر کی آخری سماعت میں ایک نیا پہلو سامنے آیا ۔اس کے کچھ عرصہ بعد تحریک انصاف کی درخواستوں پر اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے دسمبر میں درخواستوں کی سماعت جنوری 2017 کے پہلے ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ مقدمے کی سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دیا جائے گا کیونکہ 31 دسمبر کو ان کی مدتِ ملازمت مکمل ہو رہی ہے۔

یکم جنوری کو پاناما لیکس کا معاملہ نئے سال میں داخل ہوا اور سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کیس کی سماعت کے لیے سینئرترین جج آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔ کیس کی ازسرنو سماعت سے ایک دن پہلے شریف خاندان نے اپنے وکلا بھی تبدیل کر دیے۔ چار جنوری کو سپریم کورٹ کے اندر سماعت شروع ہوئی ۔ نئے بینچ نے سماعت کے پہلے دن یہ فیصلہ سنایا کہ اب مقدمے کو روزانہ کی بنیاد پر سنا جائے گا ۔

دس جنوری کی سماعت میں تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے حدیبیہ پیپرز ملز کے مقدمے میں اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کا حوالہ دیا اور کہا کہ یہ شریف برادران کی طرف سے منی لانڈرنگ سے متعلق ہے۔ حدیبیہ پیپرز ملز کے مقدمے کی دوبارہ تحقیقات کرنے کے بارے میں قومی احتساب بیورو کو احکامات جاری کرنے کی استدعا پر بینچ کے سربراہ کہا کہ عدالت نہ کوئی ٹرائل کورٹ ہے اور نہ ہی کوئی تحقیقاتی ادارہ۔

16 جنوری کی سماعت میں عدالت نے سوال اٹھایا کہ کہ قومی اسمبلی میں تقریر میں وزیر اعظم نے کوئی غلط بیانی نہیں کی تو پھر وہ اس بارے میں استثنی کیوں مانگ رہے ہیں تاہم ایک دن کے بعد عدالت نی کہاکہ وزیر اعظم کو وہ استثنی حاصل نہیں ہے جو آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت صدر مملکت اور گورنر کو حاصل ہے۔استتثی کے معاملے کے بعد وزیراعظم کے وکیل کی جانب سے 18 جنوری کو عدالت کو بتایا گیا کہ کہ وزیر اعظم کے بیٹے حسین نواز نے چار سال کے دوران اپنے والد کو 52 کروڑ روپے بھجوائے ہیں۔

26 جنوری کی سماعت میں ایک پھر وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز کے وکیل کی جانب سے قطری شہزادے کا ایک نیا خط سامنے آیا جس میں شیخ حماد بن جاسم بن جابر الثانی نے کہا کہ وزیر اعظم کے والد میاں شریف نے سنہ 1980 میں قطر میں ایک کروڑ بیس لاکھ قطری ریال کی سرمایہ کاری کی تھی۔ عدالت نے آئندہ سماعت میں قومی احتساب بیورو سے اس اجلاس کی کارروائی کی تفصیلات مانگ لیں جس میں حدیبیہ پیپرز ملز کے مقدمے میں ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

اگلی سماعت میں نیب کے اجلاس کی رپورٹ پیش کر دی گئی ۔فروری کے آغاز میں مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ کے رکن جسٹس عظمت سعید کی طبیعت اچانک ناساز ہونے پر دو ہفتے تک ملتوی رہی اور 15 فروری سے یہ مقدمہ دوبارہ سنا گیا اور موضوعِ بحث حدیبیہ پیپرز مل سے متعلق معلومات ہی رہیں۔21 فروری کی سماعت میں نیب کے سربراہ نے کہا ہے کہ وہ حدیبیہ پیپرز ملز کے مقدمے میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہ کرنے کے فیصلے پر قائم ہیں ۔

عدالت نے 23 فروری کو اس معاملے کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرنے کا اعلان کیا۔ عدالت نے مختصر فیصلہ جاری نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایسا مقدمہ نہیں جس کا مختصر فیصلہ سنایا جائے۔ سماعت مکمل ہونے کے بعد بینچ کے سربراہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدالت آئین اور قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے ان درخواستوں پر فیصلہ دے گی ۔ سپریم کورٹ نے 18 اپریل کو اعلان کیا کہ پاناما دستاویزات کے بارے میں وزیراعظم نواز شریف سمیت چھ افراد کی نااہلی سے متعلق درخواستوں پر 23 فروری کو محفوظ کیا جانے والا عبوری فیصلہ 20 اپریل کو سنایا گیا ۔

جس میں عدالت نے دوہفتے کے اند ر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کا حکم دیا۔جے آئی ٹی مقررہ دنوں کے اند ر تشکیل دیدی گئی ۔سپریم کورٹ میں پاناما کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے بننے والی جے آئی ٹی کا پہلا اجلاس 8 مئی کو ہوا۔ سپریم کورٹ کے پاناما کیس فیصلے پر عملدرآمد کیلئے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نی6 مئی کو جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی اداری(ایف آئی ای) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کو مقرر کیا۔

جے آئی ٹی کے دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئرکامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلی جنس(آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب)کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل تھے۔ جے آئی ٹی کا پہلا اجلاس 8 مئی کو فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں ہوا۔

19 مئی کو جے آئی ٹی نے قطری شہزادے حمد بن جاسم کو سمن جاری کیے لیکن وہ پیش نہ ہوئے۔ وزیراعظم کے بڑے صاحبزادے حسین نواز جے آئی ٹی میں پہلی مرتبہ 28 مئی کو، دوسری مرتبہ 30 مئی کو، یکم جون کو تیسری بار، تین جون کو چوتھی مرتبہ،9 جون کو پانچویں بار اور پھر 3 جولائی کو چھٹی مرتبہ پیش ہوئے۔وزیر اعظم کے چھوٹے صاحبزادے حسن نواز پہلی مرتبہ جے آئی ٹی میں 2 جون کو، دوسری بار 8 جون اور تیسری مرتبہ 4 جولائی کو پیش ہوئے۔

جے آئی ٹی نے اپنی پہلی پیشرفت رپورٹ22 مئی کو، دوسری 7جون اور تیسری رپورٹ 22 جون کو پیش کی۔وزیر اعظم نوازشریف متعلقہ دستاویزات سمیت 15 جون کو پیش ہوئے۔ 13 جون کو سابق وزیر داخلہ رحمان ملک اور وزیراعلی پنجاب شہباز شریف 17 جون کو پیش ہوئے۔ 4 جولائی کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار تو 5 جولائی کو وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز اور اسی روز چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری کی بھی پیشی ہوئی۔

پاناما کیس کے لیے بننے والی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے 10 جولائی کو اپنی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی جس پر عدالت عظمی نے 17 جولائی کو سماعت کی اور پھر سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے پاناما کیس کا فیصلہ 21 جولائی کو محفوظ کیا تھاجس کو (آج )28جولائی بروز جمعہ دن ساڑھے گیا رہ بجے سنانے کااعلان کیاہے۔

متعلقہ عنوان :