سپریم کورٹ، جے آئی ٹی نے پاناما فیصلے پرعملدرآمد بارے پیشرفت رپورٹجمع کرادی

تحریک انصاف کی رپورٹ شیئر کرنے کی درخواست مسترد، مناسب وقت پر رپورٹ منظر عام پر لائی جائیگی ،ْعدالت عظمیٰ ایسا کوئی فوجداری مقدمہ بتا دیں جس میں دور ان تفتیش دستاویزات فریقین کے حوالے کر دی گئی ہوں ،ْ سپریم کورٹ ہمیں رپورٹ سے اختلافات نہیں ہے ،ْ ججز کا جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کسی صورت اضافی وقت نہیں دیا جائیگا ،تحقیقات 60 روز میں لازمی مکمل کریں ، کوئی ادارہ تعاون نہیں کررہا تو بتایا جائے ،عدالت اپنے حکم پر عملدر آمد کرانا جانتی ہے ،ْ ججز کے ریمارکس

پیر 22 مئی 2017 16:56

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ منگل مئی ء)سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما فیصلے پر عملدر آمد کیس کی سماعت کے دور ان تحریک انصاف کی جانب سے جے آئی ٹی کی رپورٹ شیئر کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ مناسب وقت پر رپورٹ منظر عام پر لائی جائیگی ،ْ ایسا کوئی فوجداری مقدمہ بتا دیں جس میں دور ان تفتیش دستاویزات فریقین کے حوالے کر دی گئی ہوں جبکہ ججزنے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ ہمیں رپورٹ سے اختلافات نہیں ہے ،ْ اس بات کا خیال رکھا جائے کسی صورت اضافی وقت نہیں دیا جائیگا ،ْ تحقیقات 60 روز میں لازمی مکمل کریں ،ْ کوئی ادارہ تعاون نہیں کررہا ہے تو بتایا جائے عدالت اپنے حکم پر عملدر آمد کرانا جانتی ہے ۔

(جاری ہے)

پیر کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما فیصلے پر عمل درآمد کیس کی سماعت ہوئی جس میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے مزید تحقیقات کیلئے قائم کی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اب تک ہونے والی پیش رفت کی رپورٹ پیش کی۔جے آئی ٹی کی جانب سے سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ کے سامنے 3 سربہمر لفافے پیش کیے گئے جن میں اب تک پاناما لیکس کے معاملے پر ہونے والی تحقیقات کی تفصیلات درج تھیں۔

ججز نے سربمہر لفافوں کو کھول کر رپورٹ پڑھی اور دوبارہ لفافوں کو بند کرکے ہدایت کی کہ انہیں رجسٹرار کے پاس جمع کرادیں۔جے آئی ٹی کی رپورٹ پڑھنے کے بعد جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہم اس پر غیر مطمئن نہیں ہیں اور ہمیں رپورٹ سے اختلاف نہیں ہے۔اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم شہرت کیلئے قانون نہیں بیچتے۔پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت بھی اس موقع پر عدالت میں موجود تھی ،ْپی ٹی آئی کی جانب سے فیصل چوہدری ایڈوکیٹ نے عدالت سے استدعا کی کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو عام کیا جائے تاہم جسٹس اعجاز افضل نے ان کی استدعا مستردکرتے ہوئے کہا کہ مناسب وقت پر رپوٹ منظر عام پر لائی جائیگی ،ْ کوئی ایسا فوجداری مقدمہ بتادیں جس میں دوران تفتیش دستاویزات فریقین کے حوالے کردی گئی ہوں۔

سماعت کے دوران خصوصی بینچ کے رکن جسٹس عظمت سعید شیخ نے جے آئی ٹی کو واضح طور پر کہا کہ اس بات کا خیال رکھیں کہ کسی صورت اضافی وقت نہیں دیا جائیگا ،ْ تحقیقات 60 روز میں لازمی مکمل کریں۔جسٹس عظمت نے جے آئی ٹی ارکان سے کہا کہ اگر کسی ادارے سے کوئی مسئلہ ہے یا کوئی ادارہ تعاون نہیں کررہا تو بتایا جائے ،ْعدالت اپنے حکم پر عمل درآمد کرانا جانتی ہے۔

بعد ازاں سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی گئی۔یاد رہے کہ گذشتہ ماہ 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کیلئے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی ای) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا تھا۔فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائیگی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کریگی ،ْ جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی ،ْاس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل اراکین کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔

جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی ای) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیاتھا ۔