اللہ کا حکم ہے سچ نہ چھپائو ،سچ کیلئے گواہ بنو:جسٹس آصف سعید کھوسہ

المیہ ہے کوئی سچا گواہ نہیں بنتا،سارا نظام عدل پر قائم ہے ،سچ سامنے نہیں آئیگا تو انصاف کیسے ہوگا، ریمارکس قتل کے تین مختلف مقدمات میں ایک کی اپیل مسترد جبکہ2 کو بری کرنے کا حکم

جمعرات 18 مئی 2017 18:44

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعہ مئی ء) سپریم کورٹ میں قتل کے مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اللہ کا حکم ہے کہ سچ کو نہ چھپائو اور سچ کے لیے گواہ بنولیکن ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ کوئی سچا گواہ نہیں بنتا، یہ بھی المیہ ہے کہ قتل کے مقدموں میں رشتہ داروں کو گواہ بنا کر جھوٹی کہانی بنائی جاتی ہے،سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے جو جج بہانے بنا کر سزا کم کرتے ہیں وہ جج رہنے کے اہل نہیں ،سارا نظام عدل پر قائم ہے لیکن جب سچ ہی سامنے نہیں آئے گا تو عدل کیس ہو گا۔

جبکہ عدالت عظمیٰ نے پنجاب میں قتل کے تین الگ الگ مقدمات میں دو ملزمان ریاض احمد اور غلام قادر کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا جبکہ قتل کے مجرم مدثر حسین کی عمر قید کی سزا کیخلاف بریت کی اپیل مسترد کردی ہے ۔

(جاری ہے)

جمعرات کو تینوں مقدمات کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس قاضی فائزعیسیٰ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کی ،11سال بعد بری ہونے والے ملزم ریاض احمد پر2005صادق آباد میں عمر فاروق نامی شخص کو قتل کرنے کا الزام تھا جس پر ٹرائل کورٹ اورہائی کورٹ نے ملزم کو سزائے موت سنائی تھی ،سپریم کورٹ نے ملزم کو بری کرتے ہوئے ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا اور کہا کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے ،دونوں عدالتوں نے حقائق کا درست انداز میں جائزہ نہیں لیا ، جبکہ ملزم غلام قادر پر 2001میں فیصل آباد میں غلام رسول نامی شخص کو قتل کرنے کا الزام تھا جس پر ٹرائل کورٹ نے ملزم کو سزائے موت اور ہائی کورٹ نے عمر قید کی سزا سنائی تھی ،تاہم سپریم کورٹ نے شک کا فائدہ دیتے ہوئے ملزم کو بری کردیا ہے ،اس مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اس مقدمے میں حقائق چھپائے گئے ہیں اور مقدمے میں پیش کیے گئے گواہان سچے نہیں اور وجہ عناد بھی سامنے نہیں آئی ،اللہ کا حکم ہے کہ سچ کو نہ چھپائو اور سچ کے لیے گواہ بنولیکن ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ کوئی سچا گواہ نہیں بنتا ،بعدا زاں عدالت عظمیٰ نے 2001میں فیصل آباد میں شاہ مند نامی شخص کو قتل کرنے والے ملزم مدثر حسین کی بریت کی اپیل مسترد کردی اورہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا ، ملزم کو ہائی کورٹ نے عمر قید کی سزا سنا رکھی تھی ،اس مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ المیہ یہ ہے کہ قتل کے مقدموں میں رشتہ داروں کو گواہ بنا کر جھوٹی کہانی بنائی جاتی ہے ،اگر پولیس نے کسی کو گواہ نہیں بنایا تو عدالت کا فرض ہے کہ اسے طلب کرے ،سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے جو جج بہانے بنا کر سزا کم کرتے ہیں وہ جج رہنے کے اہل نہیں ،سارا نظام عدل پر قائم ہے لیکن جب سچ ہی سامنے نہیں آئے گا تو عدل کیس ہو گا ،اس کیس میں وجہ عناد ثابت ہوتی ہے ، مقتول ملزم مدثر کے باپ کا قاتل تھا ،مقتول شاہ مند وقوعے کے چند ماہ قبل عمر قید کاٹ کر بری ہوا تھا ، وجہ عناد ثابت ہونے کی وجہ سے سزا برقرار رہے گی