10 سالوں کے دوران مجموعی طور پر 2 لاکھ 44 ہزار 761 اسلحہ لائسنس جاری کئے گئے ،ْسینٹ میں وقفہ سوالات

پیمرا ضابطہ اخلاق کی واضح خلاف ورزی پر از خود نوٹس لیتا ہے ،ْمریم اور نگزیب مشکوک مدارس کے حوالے سے سندھ حکومت کی جانب سے 94 مدارس کی فہرست موصول ہوئی ہے ،ْ بلیغ الرحمن

بدھ 19 اپریل 2017 22:00

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعرات اپریل ء)سینیٹ کو بتایا گیا ہے کہ 10 سالوں کے دوران مجموعی طور پر 2 لاکھ 44 ہزار 761 اسلحہ لائسنس جاری کئے گئے ،ْ مشکوک مدارس کے حوالے سے سندھ حکومت کی جانب سے 94 مدارس کی فہرست موصول ہوئی ہے ،ْ میٹرو پولیٹن کارپوریشن اسلام آباد میں مالیوں کی تعداد 972 ہے ۔ بدھ کو سینٹ میں وقفہ سوالات کے دور ان وزیر مملکت برائے اطلاعات، نشریات و قومی ورثہ مریم اورنگزیب کی جانب سے تحریری طور پر بتایا گیا کہ پیمرا ضابطہ اخلاق کی واضح خلاف ورزی پر از خود نوٹس لیتا ہے اور شکایت پر فوری توجہ دیتا ہے تاہم اس معاملہ پر اب تک پیمرا کو کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی چنانچہ اس حوالے سے کوئی کارروائی بھی نہیں کی گئی کیونکہ اتھارٹی کے پاس ایسا کوئی طریقہ کار نہیں ہے جس سے وہ خود اس بات کو یقینی بنا سکے کہ کوئی مواد گمراہ کن ہے یا کچھ اور تاہم وزارت صحت پیمرا کی جانب سے ملکی قوانین کے مطابق کارروائی کے لئے ٹی وائٹز کے مواد پر مشورہ دے سکتی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کا کردار پیمرا کو پالیسی ہدایات دینے تک محدود ہے۔ ایکٹ 2007ء کی دفعہ 5 کے تحت ریگولیٹری اتھارٹی کی خودمختاری کے اصول کے تناظر میں وفاقی حکومت پیمرا کے آپریشنل معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔ وزیر مملکت برائے داخلہ انجینئر بلیغ الرحمن نے بتایا کہ گزشتہ 10 سالوں کے دوران وزارت داخلہ کی طرف سے پنجاب میں ایک لاکھ 2 ہزار 706، سندھ میں 56 ہزار 126، خیبر پختونخوا میں 51 ہزار 198، بلوچستان میں 30 ہزار 923، آزاد کشمیر میں 337 اور گلگت بلتستان میں 106 اسلحہ لائسنس جاری کئے گئے۔

انہوں نے بتایا کہ 10 سالوں کے دوران مجموعی طور پر 2 لاکھ 44 ہزار 761 اسلحہ لائسنس جاری کئے گئے۔وزیر مملکت برائے داخلہ انجینئر بلیغ الرحمان نے بتایا کہ حکومت سندھ کو چاہئے تھا کہ وہ ان مدارس کے خلاف کارروائی کے لئے ثبوتوں اور شہادتوں کی روشنی میں متعلقہ قوانین کے حوالے سے واضح سفارشات مرتب کرتی۔ خط میں پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان کے مدارس کا بھی ذکر تھا جو سندھ حکومت کے علاقائی قانونی دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔

سندھ حکومت نے اس بارے وضاحت نہیں کی کہ ایک اضافی علاقائی فہرست وفاقی حکومت کو کیوں بھیجی گئی ہے۔ ان مدارس کی مشکوک سرگرمیوں کے بارے میں قطعی طور پر کوئی قانونی ثبوت یا شہادت نہیں دی گئی جبکہ کراچی اور سکھر کے علاوہ دیگر علاقوں کے 27 مدارس کے حوالے سے ان کے نام تک نہیں دیئے گئے لہذا مندرجہ بالا معلومات سے ظاہر ہے کہ زیر حوالہ رابطہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کی دفعہ 11 ب 1 کی مقتفیات پوری کرنے میں ناکام ہے کیونکہ مماثل تفصیلات کے بغیر مشکوک مدارس کی مبینہ سرگرمیاں اور وابستگیاں محض دعویٰ کی بنیاد پر یقینی کارروائی کی بنیاد نہیں بن سکتیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت اسلام آباد میں شجرکاری، پھولوں کی دیکھ بھال اور دیگر متعلقہ کاموں کے لئے میٹرو پولیٹن کارپوریشن اسلام آباد میں ہارٹیکلچر برانچ میں کام کرنے والے مالیوں کی تعداد 972 ہے۔وزیر مملکت برائے داخلہ انجینئر بلیغ الرحمان نے بتایا کہ دہشت گردی کے واقعات میں شہید ہونے والے عام شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ملازمین کے اعداد و شمار اکٹھے کرنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان کے تحت وفاقی حکومت، صوبائی حکومتوں سے رابطے کے تحت کام کرتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 2010ء میں دہشت گردی کے کل 2000 واقعات ہوئے۔ 2013ء میں 1316، 2014ء میں 1814، 2015ء میں 1139 اور 2016ء میں دہشت گردی کے 785 واقعات ہوئے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گردی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ نیشنل فورنزک سائنس ایجنسی ایچ الیون فور اسلام آباد میں قائم ہے جس میں 27 افراد خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نیشنل فورنزک سائنس ایجنسی کو پورے ملک سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے فرانزک کے نمونے بھیجے جاتے ہیں۔

نیشنل فورنزک سائنس ایجنسی ڈی این اے، مشکوک دستاویزات، فنگر پرنٹ، فائر آرمز ٹول مارک، دھماکہ خیز مواد، گاڑیوں کا معائنہ اور موقع واردات کے معائنہ کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب فورنزک سائنس ایجنسی آڈیو ویڈیو معائنہ، کمپیوٹر فورنزک یونٹ، کرائم و ڈیتھ سین، ڈی این ای/سیرالوجی، فرانزک فوٹو گرافی، اسلحہ و ٹول مارکس، منشیات، فنگر پرنٹ، پیتھالوجی، پولی گراف، مشکوک دستاویزات اورٹوکسیلوجی کی سہولیات فراہم کر رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد کے 14 دیہی علاقوں میں بنیادی صحت کے مراکز قائم کئے گئے ہیں جن میں روات، گاگری، بکھر، بھمر تارڑ، سوہان، جگیوٹ، جھنگی سیداں، چراہ، ترمیر، پنڈ بھگلوال، پھلگراں، شاہدرہ، گوکینہ اور شاہ الله دتہ شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد میں پولی تھین بیگ تیار کرنے والی چار کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ وزارت ریلوے کی طرف سے انہوں نے ایوان کو بتایا کہ اس وقت ملک بھر میں سرکاری اداروں اور بااثر نجی افراد نے مجموعی طور پر ریلوے کی 4196.79 ایکڑ اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے۔

ان سے قبضہ واگذار کرانے کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نجی افراد نے 3404.884 ایکڑ اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے۔ حکومتی اداروں نے 540.668 ایکڑ اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے جبکہ 251.238 ایکڑ اراضی دفاعی اداروں کے قبضہ میں ہے۔

متعلقہ عنوان :