مشال خان کے خلاف توہین مذہب کے شواہد نہیں ملے ،ْسپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرادی گئی

مقدمے میں اب تک 26 ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے جس میں یونیورسٹی کے 6 ملازم بھی شامل ہیں ،ْرپورٹ

منگل 18 اپریل 2017 17:01

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ بدھ اپریل ء) مردان میں عبد الولی خان یونیورسٹی کے طالبعلم مشال خان قتل سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مشال خان کے خلاف توہین مذہب کے شواہد نہیں ملے۔منگل کو آئی جی خیبر پختونخوا نے سپریم کورٹ میں مشال خان قتل سے متعلق رپورٹ جمع کرادی ہے جس میں کہا گیا کہ وقوعہ کے روز یونیورسٹی کی انتظامیہ نے دن 12 بج کر 52 منٹ پر علاقے کے ڈی ایس پی حیدر خان کو موبائل پر کال کی اور انہیں یونیورسٹی آنے کا کہا۔

دوپہر ایک بج کر 7 منٹ پر ڈی ایس پی یونیورسٹی میں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ لوگ مشال خان کے دوست عبداللہ کو تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں۔ حیدر خان کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں واقعے کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔

(جاری ہے)

حیدر خان کے بیان کی تصدیق کے لیے ان کے موبائل فون کا ڈیٹا حاصل کرلیا گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقدمے میں اب تک 26 ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے جس میں یونیورسٹی کے 6 ملازم بھی شامل ہیں، واقعہ کے مرکزی ملزم وجاہت نے اعترافی بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کرایا جس میں اس نے یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی ملوث قرار دیا ہے ،ْ اس کے علاوہ مشال خان کے دوست عبد اللہ کا بیان بھی ریکارڈ کر لیا گیا ہے جس میں عبد اللہ کے مطابق مشال نے کبھی توہین رسالت نہیں کی۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ معاملہ کی جوڈیشل انکوائری کے لیے پشاور ہائی کورٹ کو خط لکھ دیا ہے، مشال خان کے خلاف توہین مذہب کے شواہد نہیں ملے، مشال خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی تصدیق کے لیے ایف آئی اے سے مدد مانگی ہے جبکہ معاملہ پر مزید پیش رفت جاری ہے۔رپورٹ میں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے مشال خان کے خلاف تحقیقات سے متعلق نوٹی فکیشن پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں، رپورٹ میں کہا گیا کہ یونیورسٹی کو توہین رسالت کی تحقیقات کا اختیار ہی نہیں تھا ،ْاگر اس قسم کا واقعہ ہوا تھا تو انتظامیہ کو پولیس کو رپورٹ کرنی چاہیے تھی۔