سانحہ عبدالولی خان یونیورسٹی کے حوالے سے 8 ملازمین سمیت 22 مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ‘ اعلیٰ قیادت نے مشعال خان کے خاندان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے،کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، نصاب تعلیم میں بہتری کیلئے کام ہو رہا ہے

وزیر مملکت داخلہ بلیغ الرحمان کے سینیٹ میں ارکان کے سوالوں کے جواب تمام جماعتوں کے اراکین کی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مشعال خان کی ہلاکت کی مذمت ، واقعہ کو درندگی قرار دیدیا ، ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے پرزور ،مسلم لیگ (ن) نے مشعال خان قتل کیس کو فوجی عدالت کے سپرد کرنے کا مطالبہ

پیر 17 اپریل 2017 22:55

اسلا م آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ منگل اپریل ء)وزیر مملکت برائے داخلہ امور انجینئر بلیغ الرحمان نے سینیٹ کو آگاہ کیا ہے کہ سانحہ عبدالولی خان یونیورسٹی کے حوالے سے 8 ملازمین سمیت 22 مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے ‘ اعلیٰ قیادت نے مشعال خان کے خاندان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے جبکہ تمام جماعتوں کے اراکین نے مردان یونیورسٹی میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں طالب علم مشعال خان کی ہلاکت کی سخت مذمت کرتے ہوئے واقعہ کو درندگی قرار دیدیا ہے، ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے مشعال خان قتل کیس کو فوجی عدالت کے سپرد کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے‘ عوامی اہمیت کے معاملات پر نکتہ اعتراض پر عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر الیاس احمد بلور نے کہا کہ قانون کو ہاتھ میں لیا گیا ۔

(جاری ہے)

یہ واقعہ درسگاہ میں کیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں پانچ جامعات کے وائس چانسلرز نہیں ہیں اگر جامعات کے سربراہان ہی نہیں ہوں گے تو ان میں نظم و ضبط کیسے قائم کریں گے۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہاکہ اس بربریت کے موقع پر لوگوں اور پولیس والے بھی موجود تھے مشعال کو بچانے کے لئے موجود لوگ سیلفیان بناتے رہے۔ بدقسمتی سے قانون کی عملداری کو چیلنج کیا گیا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم خان نے کہاکہ یہ دہشت گردی نہیں ہے بلکہ درندگی ہے۔ ہم سب کو اکٹھا ہو کر ملک کو ایسے واقعات سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ عائشہ رضا ربانی نے کہا کہ دن دیہاڑے خون بہایا گا ہے۔ معاشرے میں کوئی بھی اس قسم کی بربریت کی حمایت نہیں کر سکتا۔ سینیٹر اعظم سواتی نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ کے پس پردہ معاملات کو بھی دیکھا جائے۔

سینیٹر سراج الحق نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جس معاشرے میں قانون کی حکمرانی نہ ہو وہاں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے سے برداشت ‘ اعتدال ختم ہوتا جا رہا ہے۔ انتہائی المناک صورتحال ہے ۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ سارے معاشرے پر اس واقعہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جنگل کے قانون کا سماں تھا۔ طاقت کے استعمال کی سوچ دی گئی ہے۔ اکثر جامعات میں وائس چانسلرز نہیں ہیں ۔

سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ یہ واقعہ بربادی کی نشانی ہے ‘ بے گناہ کا قتل کیا گیاہے۔ ایسے واقعات کا تدارک نہ کیا گیا تو مستقبل خوفناک ہے۔ سینیٹر محسن عزیز نے مطالبہ کیا کہ جنہوں نے نماز جنازہ سے روکا ان کو بھی سزا دی جانی چاہیے۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہاکہ انتہائی دکھ اور افسوس کا مقام ہے۔ ولی خان یونیورسٹی میں طالب علم کے ساتھ بربریت اور ظلم ہوا ہے۔

اراکین پارلیمنٹ جامعات میں کانووکیشن میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ کوئی این جی اوز اور امدادی ادارے کسی فائیو سٹار میں کوئی فکشن کرے تو ہم محفوظ رہتے ہیں۔ اس لئے تعلیمی معیار کے بارے میں سوال اٹھ رہے ہیں اگر اصلاح احوال نہ کی گئی تو مطلب ہے کہ مزید واقعات کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ کراچی میںڈھائی سو لوگوں کو جلایا گیا اگر ان خاندانوں کو انصاف مل جاتا تو کسی کو اس قسم کے واقعہ کو دہرانے کی ہمت نہ ہوتی۔

ملوث افراد اور خاموش تماشائی تفتیش کر کے اور جنہوں نے جھوٹا الزام لگایا سب کو سزا دی جائے۔ مقدمہ فوجی عدالت میں بھجوایا جائے۔ سینیٹر کامل علی آغا نے بھی واقعہ کی مذمت کی اور کہا کہ جھوٹا الزام لگانے اور عوام و طلبہ کو مشتعل کرنے والوں کیخلاف بھی کارروائی کی جائے۔ سینیٹر شاہی سید نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے غم زدہ خاندان کو سرخ سلام پیش کیا اور کہا کہ اعلیٰ تعلیمی ادارہ میں یہ واقعہ ہوا ہے یہ کسی مسجد ‘ مدرسہ یا بازار میں نہیں ہوا۔

ڈی ایس پی پولیس کے ساتھ موجود تھا جرات نہ ہوئی۔ اسلام آباد میں پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر کے سامنے ایک ایس پی پر ہجوم نے تشدد کیا اس قسم کے واقعات پر پوائنٹ سکورنگ نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں اس قسم کے واقعات پر عوام سے بات کرنی چاہیے۔ سوشل میڈیا پر ہماری تعلیم اقدار ‘ مذہبی تعلیمات کا قتل کیا جا رہا ہے ۔ اراکین سینٹ کو جامعات کے دوروں کا پابند بنایا جائے۔

سینیٹر سلیم ضیاء نے بھی واقعہ کی مذمت کی۔ نہ عدالت لگی نہ الزام تھا اور ہجوم بربریت کا مظاہرہ کیا گیا لوگ خاموش تماشائی بنے رہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ انجینئر بلیغ الرحمن نے بتایا کہ آئی جی خیبر پختونخوا سے رپورٹ طلب کی گئی ہے۔ عبدالولی خان یونیورسٹی میں کشیدگی کی اطلاع پر ڈی ایس پی سوا ایک بجے پولیس کے ہمراہ جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے سامنے پہنچ گئے تھے۔

مشتعل ہجوم ہاسٹل نمبر ایک میں فائرتگ کی اطلاع ملی نعش سڑک پر پڑی تھی۔ پولیس نے فوری طو رپر نعش کو تحویل میں لیا۔ 70 طلبہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس نے کارروائی کی تھی مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ پولیس نے کوشش کے بعد 20 میں سے 16 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے مزید 6 گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ گرفتار ہونے والوں میں کچھ ملازمین بھی شامل ہیں۔ کل 22 گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ ساری اعلیٰ قیادت نے اس واقعہ کی مذمت کی کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ نصاب تعلیم میں بہتری کیلئے کام ہو رہا ہے۔ …(رانا+اع)