بدعنوانی میں ملوث شخص سے مجھے بدبو آتی اور کراہت ہوتی ہے ،سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر محمد یعقوب کو ہٹانے کی تجویز میں نے وزیر اعظم کو دی تھی،ممنون حسین

مجھے کبھی’ سیلف پروجیکشن‘ کی خواہش رہی نہ میں نے کبھی آگے بڑھنے کیلئے لابنگ کی ، سی پیک کے مغربی روٹ میں تبدیلی نہیں ہوئی ، آج کراچی کو دیکھتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے جس شخص کی جو ذمہ داری ہے ، وہ دیانت داری سے پوری کرے تو ملک ٹھیک ہو جائیگا ،صدر مملکت کا گورنرہاؤس کراچی میں تقریب سے خطاب

ہفتہ 15 اپریل 2017 19:48

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ اتوار اپریل ء) صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ مجھے جس شخص پر بدعنوان ہونے کا شبہ ہوتا ہے ، میں اس کے ساتھ زیادہ دیر نہیں بیٹھ سکتا ۔ مجھے ایسے شخص سے بدبو آتی ہے اور کراہت ہوتی ہے ۔ سابق گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ڈاکٹر محمد یعقوب کو ہٹانے کی تجویز میں نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو دی تھی ۔

سابق گورنر سندھ معین حیدر کے بارے میں بھی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو بتایا تھا کہ یہ سیاست دانوں سے اچھے طریقے سے نہیں ملتے ۔ مجھے کبھی ’’ سیلف پروجیکشن ‘‘ کی خواہش نہیں رہی اور نہ ہی میں نے کبھی آگے بڑھنے کے لیے لابنگ کی ۔پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کے مغربی روٹ میں تبدیلی نہیں ہوئی ۔

(جاری ہے)

اس حوالے سے خوامخوا غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں ۔

آج میں کراچی کو دیکھتا ہوں تو بہت افسوس ہوتا ہے ۔ وہ ہفتہ کو سندھ گورنر ہاؤس میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے ، جو وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے کراچی پریس کلب کو گرانٹ دینے کے سلسلے میں منعقد ہوئی تھی ۔ اس موقع پر گورنر سندھ محمد زبیر عمر ، پنجاب کے وزیر اطلاعات میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن ، حکومت پنجاب کے ترجمان ملک احمد خان اور کراچی پریس کلب کے عہدیداران اور سینئر صحافی بھی موجود تھے ۔

صدر ممنون حسین نے کہا کہ انسان اچھا کام کرتا رہے تو اس کی پروجیکشن خود ہو جاتی ہے ۔ اللہ میاں نے جسے آگے بڑھانا ہوتا ہے ، اسے کوئی نہیں روک سکتا ۔ لوگ خوامخوا بھاگتے رہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میری عمر 76 سال ہو گئی ہے ۔ اس عمر تک تجربہ آ ہی جاتا ہے ۔ نوجوان ہمارے تجربے سے سیکھیں ۔ صدر مملکت نے خود کو مختلف عہدے ملنے کے حوالے سے بڑی دلچسپ کہانی سنائی اور کہا کہ ان عہدوں کے لیے میں نے کبھی بھاگ دوڑ نہیں کی ۔

انہوں نے کہا کہ 1997 ء میں جب میاںمحمد نواز شریف وزیر اعظم بنے تو وہ کراچی تشریف لائے ۔ ہم ان کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پر گئے ۔ ہم نے ان کا خیر مقدم کیا ۔ اس کے بعد وزیر اعظم اپنی گاڑی کی طرف بڑھنے لگے اور میں اپنی گاڑی کی طرف بڑھنے لگا تو میاں صاحب نے مجھے آواز دی ۔ میں جب ان کے قریب گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے وزیر اعظم بنے 6، 7 ماہ ہو گئے ہیں ۔

لوگ تو میرے کاندھوں پر سوار رہتے ہیں اور عہدے مانگتے رہتے ہیں ۔ آپ نے مجھے کچھ نہیں کہا ۔ آپ بتائیں کہ آپ کیا بننا چاہتے ہیں ۔ میں نے میاں نواز شریف سے کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاہئے ۔ آپ نے ملک کے اقتصادی معاملات پر ہماری رائے لی اور اس رائے کو اپنی پالیسیوں کا حصہ بنایا لیکن ہم نے آپ کو تجویز دی تھی کہ گورنر اسٹیٹ بینک محمد یعقوب کو ہٹا دیں لیکن آپ نے انہیں نہیں ہٹایا ۔

وزیر اعظم نے کہا کہ آپ اسلام آباد آجائیں اور کچھ ذمہ داری سنبھالیں ۔ میں نے ان سے کہا کہ میں اسلام آباد نہیں آ سکتا ۔ میرا کراچی میں کاروبار ہے تو وزیر اعظم نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ کراچی میں کچھ کریں ۔ دوسرے دن سندھ کے وزیر اعلیٰ لیاقت جتوئی نے مجھے فون کیا اور کہا کہ آپ سندھ کابینہ میں مشیر کی حیثیت سے کام کریں ۔ اس طرح میں وزیر اعلیٰ کا مشیر بن گیا ۔

صدر ممنون حسین نے کہا کہ کراچی میں حکیم سعید کے قتل کے بعد سندھ حکومت اور سندھ اسمبلی معطل ہو گئیں ۔ اس طرح میرا عہدہ بھی چلا گیا ۔ پھر دوستوں نے مجھے ایوان صنعت و تجارت کراچی کے صدر کا الیکشن لڑنے کے لیے کہا ۔ میں منع کرتا رہا لیکن دوست مسلسل اصرار کرتے رہے ۔ پتہ بھی نہیں چلا اور میں بلا مقابلہ صدر بن گیا ۔ اس زمانے میں کراچی چیمبر کا صدر تاجروں اور صنعت کاروں کا وزیر اعظم ہوتا تھا ۔

صدر ممنون حسین نے کہاکہ ابھی اس عہدے پر دو ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ میں مجھے وزیر اعظم کا فون آیا اور کہا کہ آج شام میں ان سے ایوان وزیر اعظم میں ملوں ۔ میں شام 4 بجے کی پرواز سے اسلام آباد روانہ ہوا ۔ اسی پرواز میں گورنر سندھ معین حیدر بھی تھے ۔ انہوں نے مجھے آگے والی سیٹ پر اپنے ساتھ بٹھایا اور حال احوال شروع کر دیا ۔ معین حیدر نے مجھ سے پوچھا کہ وزیر اعظم سے ہونے والی میری گذشتہ ملاقات میں کیا باتیں ہوئی تھیں تو میں نے معین حیدر سے کہاکہ آپ کے بارے میں ہی باتیں ہوئی تھیں ۔

معین حیدر کو تجسس ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم میرے بارے میں کیا پوچھ رہے تھے ۔ میں نے معین حیدر سے کہا کہ میں نے میاں محمد نواز شریف کو بتایا ہے کہ معین حیدر اچھے آدمی ہیں ۔ بہت محنت کر رہے ہیں لیکن یہ سیاست دانوں سے اچھی طرح نہیں ملتے ۔ معین حیدر کہنے لگے کہ میں تو بہت اچھی طرح ملتا ہوں ۔ میں نے ان سے کہا کہ جو میری سمجھ میں آیا ،میں نے وزیر اعظم کو بتا دیا ۔

صدر ممنون حسین نے کہا کہ رات کو سوا 8 بجے ایوان وزیر اعظم میں میری میاں محمد نواز شریف سے ملاقات ہوئی ۔ وہ چار پانچ منٹ پرانی باتیں کرتے رہے ۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم نے آپ کو گورنر سندھ بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ میں نوٹیفکیشن ساتھ لایا ہوں ۔ اگر آپ اجازت دیں تو دستخط کر دوں ۔ صدر ممنون حسین نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ میری یاد داشت کمزور ہو گئی ہے لیکن الحمد اللہ میری یاد داشت اب بھی بہت اچھی ہے ۔

مجھے ساری باتیں یاد ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے مجھ سے کہا کہ آپ وزیروں سے کیوں نہیں ملتے ہیں کیوں کہ وزیر تو آپ کو جانتے نہیں ہیں ۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ممنون حسین کون ہیں ۔ میں نے وزیر اعظم سے کہا کہ میں وزیروں سے ملوں گا تو وہ یہ کہیں گے کہ پتہ نہیں یہ کسی کام سے آیا ہے ۔ اب گورنر بن گیا ہوں تو وزیروں سے بھی ملوں گا ۔

دوسرے دن میاں صاحب نے ایوان وزیر اعظم میں وزراء اور دیگر حکومتی عہدیداروں سے میری ملاقات کرائی اور کہا کہ یہ ہیں ممنون حسین ۔ اکثر لوگوں نے کہا کہ ہم شکل سے تو جانتے ہیں لیکن نام سے نہیں ۔ صدر ممنون حسین نے کہا کہ اللہ کی طرف سے یہ عنایت ہوتی ہے کہ کسی کو آپ کے بارے میں خوش گمانی ہو ۔ ایوان وزیر اعظم میاں اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل جاوید ناصر بھی موجود تھے ۔

وزیر اعظم نے جنرل جاوید ناصر کے بارے میں جو ریمارکس دیئے ، ان سے میں ہل کر رہ گیا ۔ جنرل جاوید ناصر کی بہت بڑی داڑھی تھی ۔ وزیر اعظم نے جنرل جاوید ناصر سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ جنرل صاحب آپ نے اتنی بڑی داڑھی رکھ کر جو خصوصیات اپنے اندر پیدا کی ہیں ، وہ اس بغیر داڑھی والے شخص میں ہیں ۔ میاں صاحب نے میرے بارے میں اتنی بڑی بات کہہ دی تھی ۔

میں نے بھی سوچا کہ میں ان کی بات کی لاج رکھوں گا ۔ میں گورنر سندھ بن گیا حالانکہ مجھ میں کوئی ایسی بات نہیں تھی ۔ صدر ممنون حسین نے اپنے صدر بننے کا واقعہ بھی بڑے دلچسپ انداز میں سنایا اور کہا کہ 2013 ء میں جب صدارتی الیکشن کے شیڈول کا اعلان ہوا تو میں اسلام آباد میں ہی تھا ۔ اس کے بعد مجھے کراچی آنا تھا لیکن میں اسلام آباد میں ہی رک گیا ۔

پہلے دن مسلم لیگ (ن) کی طرف سے 6 امیدواروں کے نام سامنے آئے ۔ ایک دن کے بعد چار امیدوار رہ گئے ۔ میری بیوی نے مجھے کہا کہ آپ کے فلاں فلاں دوست یہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے باقی صدارتی امیدوار وزیر اعظم کے ساتھ نظر آتے ہیں لیکن ممنون حسین کہیں نظر نہیں آتے ۔ میں نے بیگم سے کہا کہ اگر ہونا ہو گا تو ہو جائے گا ۔ وزیر اعظم بہت مصروف آدمی ہیں ۔

میں انہیں خوامخوا کیوں ڈسٹرب کروں ۔ باقی امیدواروں کا یہی طریقہ ہے کہ ساتھ ساتھ لگے رہو ۔ لیکن میرا یہ طریقہ نہیں ہے ۔ میں نے کوئی لابنگ نہیں کی ۔ تیسرے یا چوتھے دن وزیر اعظم کی طرف سے فون آیا اور انہوں نے پوچھا کہ آپ کراچی میں ہیں تو میں نے کہاکہ نہیں میں اسلام آباد میں ہی ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ آپ فوراً آ جائیں ۔ میں وہاں پہنچا تو وزیر اعظم نے مجھے کہا کہ آپ مسلم لیگ (ن) کے صدارتی امیدوار ہوں گے ۔

انہوں نے وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں سے میرا تعارف کرایا ۔ صدر ممنون حسین نے کہا کہ اللہ نے جو دینا ہے ، وہ دے دیتا ہے ۔ اس کے پیچھے بھاگنا بے کار ہے ۔ صدر نے کہاکہ نہ میں متقی ہوں ، نہ پرہیز گار ۔ البتہ غلط کاموں سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ جس شخص پر مجھے بدعنوان ہونے کا شبہ ہوتا ہے ، میں اس کے ساتھ زیادہ دیر نہیں بیٹھ سکتا ۔

مجھے اس سے بدبو آتی ہے اور کراہت محسوس ہوتی ہے ۔ جب تک بدعنوانی پر قابو نہیں پایا جائے گا ، ملک کیسے آگے بڑھے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ایک زمانہ تھا ، جب سیاست کو معیشت پر فوقیت حاصل تھی ۔ یہ 35، 40 سال پرانا زمانہ تھا لیکن اب معیشت کو سیاست پر فوقیت حاصل ہے ۔ انہوں نے کہاکہ جب میں گورنر سندھ تھا تو چین کے سفیر مجھ سے ملنے آئے اور انہوں نے کہا کہ چین کی پالیسی صرف یہ ہے کہ معاشی ترقی پر توجہ دی جائے ۔

ہمیں اس بات کی پروا نہیں کہ سرحدوں پر کیا ہو رہا ہے ۔ 35 سال پہلے چین میں لوگوں کو راشن کارڈ ملتا تھا ۔ ان 35 سالوں میں چین نے جو ترقی کی ہے ، وہ غیر معمولی ہے ۔ جو قوم محنت کرتی ہے ، وہ اس معراج پر پہنچ جاتی ہے ۔ اللہ تعالی ہم میں بھی یہ محنت کی عادتیں پیدا کرے اور یہ توفیق دے کہ بدعنوانی سے بچیں ۔ جس شخص کی جو ذمہ داری ہے ، وہ دیانت داری سے ذمہ داری پوری کرے تو ملک ٹھیک ہو جائے گا ۔

انہوں نے کہا کہ ملک ٹھیک ہو رہا ہے لیکن وقت لگے گا ۔ ہماری عادتیں خراب ہو گئی ہیں ۔ یہ بھی آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائیں گی ۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے مغربی روٹ کے بارے میں خوامخوا غلط فہمیاں پیدا کی گئیں ۔ یہ روٹ تبدیل نہیں ہوا ۔ ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں ، جن سے ملک کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہو ۔ انہوں نے کہا کہ آج میں کراچی کو دیکھتا ہوں تو بہت افسوس ہوتا ہے ۔ امید ہے کہ یہ بھی ٹھیک ہو جائے گا ۔