شناختی کارڈز کا مسئلہ پنجابی ،پختون ، بلوچی یا سندھی کا نہیں ،پاکستان کی شہریت کا مسئلہ ہے،12سے 14سالوں میں شہریت کو ڑیوں کے حساب سے بیچی گئی، چودھری نثار علی خان

ایک لاکھ 78 ہزار شناختی کارڈز 60دن کیلئے بحال کررہے ہیں،شہریت کا ثبوت دینے پر کارڈز مستقل بحال کردیئے جائینگے، ڈان لیکس کی رپورٹ پر اتفاق ہو گیا ہے چند روز میں رپورٹ وزرات داخلہ کو مل جائیگیکرنل حبیب ظاہر کے کیس میںتیسرے ملک کی سرزمین استعمال کی گئی، کیس منطقی انجام تک پہنچائینگے کلبھوشن عام بھارتی شہری نہیں ،جاسوس ہے اسی وجہ سے بھارت کو اس تک قونصلر رسائی نہیں دی گئی مشال خان کا قتل سفاکیت کی انتہا ہے ، مذہب کا غلط استعمال کیا گیا ،لوگوں کو غائب کرنا حکومت کی پالیسی نہیں، بلاگرز کے بعد 3 افراد کا غائب ہونا ناقابل قبول ہے ،سندھ حکومت سے تعاون کیلئے تیارہیں،پاکستانی شہری سے شادی کرنیوالی غیر ملکی خاتون کو پہلے ایک سال کا ویزہ دیا جائیگا، پانچ سال تک کی توسیع ہوسکے گی ، 62 این جی اوز کی باضابطہ رجسٹریشن ہوچکی ہے، خاص ضابطہ کار کے تحت کام کی اجازت دی گئی ہے،خانانی اینڈ کالیا کیس کی نئی انکوائری شروع کردی گئی ہے، ایف آئی اے اور پیپلز پارٹی کی حکومت ملی ہوئی تھی، وفاقی وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس

ہفتہ 15 اپریل 2017 22:57

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ اتوار اپریل ء) وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ بلاک شدہ شناختی کارڈز کے مسئلے پر سیاست کی جارہی ہے، شناختی کارڈز کا مسئلہ پنجابی ،پختون ، بلوچی یا سندھی کا نہیں یہ پاکستان کی شہریت کا مسئلہ ہے،12سے 14سالوں میں شہریت کو ڑیوں کے حساب سے بیچی گئی، ایک لاکھ 78 ہزار شناختی کارڈز 60دن کیلئے بحال کررہے ہیں،شہریت کا ثبوت دینے اور 1978ء سے پہلے کی شناختی دستاویزات پیش کرنے پر کارڈز مستقل طور پر بحال کردیئے جائینگے، ڈان لیکس کی رپورٹ پر اتفاق ہو گیا ہے چند روز میں رپورٹ وزرات داخلہ کو مل جائیگی، دو، چار دنوں میں میڈیا کو تسلی بھی ہو جائیگی،کرنل حبیب ظاہر کے کیس میںتیسرے ملک کی سرزمین استعمال کی گئی، کیس منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

(جاری ہے)

کلبھوشن یادیو عام بھارتی شہری نہیں ،جاسوس ہے اسی وجہ سے بھارت کو اس تک قونصلر رسائی نہیں دی گئی مشال خان کا قتل سفاکیت کی انتہا ہے ،قتل کے معاملے میں مذہب کا غلط استعمال کیا گیا جس سے بہت غلط پیغام گیا ہے،لوگوں کو غائب کرنا حکومت کی پالیسی نہیں،پہلے بلاگراوراب 3 افراد کا غائب ہونا ناقابل قبول ہے ،سندھ حکومت سے تعاون کیلئے تیارہیں،رینجرز اختیارات سے متعلق سندھ حکومت سے رابطے میں ہیں، صوبائی حکومت جلد نئے نوٹیفکیشن کا اجرا کردیگی،اوریجن کارڈ کا نام تبدیل کر کے عارضی قیام کا کارڈرکھ دیا گیا ہے ،پاکستانی شہری سے شادی کرنیوالی غیر ملکی خاتون کو پہلے ایک سال کا ویزہ دیا جائیگا جس میں پانچ سال تک کی توسیع ہوسکے گی ،اب کوئی بغیر دستاویزات کے منہ اٹھا کر پاکستان میں داخل نہیں ہو سکتا، 62 این جی اوز کی باضابطہ رجسٹریشن ہوچکی ہے ،انہیں خاص ضابطہ کار کے تحت کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے،خانانی اینڈ کالیا کیس کی نئی انکوائری شروع کردی گئی ہے، اس میں ایف آئی اے اور پیپلز پارٹی کی حکومت ملی ہوئی تھی۔

ہفتہ کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اوریجن کارڈ میں بعض تبدیلیاں کر نے کے بعد اس کا دوبارہ اجراء شروع کیا جارہا ہے اور اب اس کا نام عارضی قیام کا کارڈہوگا۔انہوں نے کہاکہ اگر کسی غیر ملکی خاتون کی شادی پاکستانی شہری سے ہوتی ہے تو اسے پہلے ایک سال کا ویزہ دیا جائیگا جس میں پانچ سال تک کی توسیع ہوسکے گی اور یہ سیکیورٹی کلیئرنس سے مشروط ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ پانچ سال کے بعد وہ خاتون عارضی قیام کے کارڈ کے حصول کی اہل ہوسکیں گی جبکہ اس کی شرائط وہی ہونگی جو پہلے پاکستان اوریجن کارڈ کیلئے ہوتی تھیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ویزے ریوڑیوں کی طرح بانٹے گئے تھے، سکیورٹی کلیئرنس کے بغیر ویزے جاری کئے جاتے تھے، 3 سال میں ویزوں کے حوالے سے بہت سے اقدامات کئے ہیں، اب کوئی بغیر دستاویزات کے منہ اٹھا کر پاکستان میں داخل نہیں ہو سکتا، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بغیر دستاویزات آنے والوں کو اب واپس بھجوایا جاتا ہے، آئندہ کسی کو لینڈنگ کارڈ کی اجازت نہیں دی جائیگی ،انہوں نے کہا کہ آن لائن ویزہ سسٹم پر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ این جی اوز کو کوئی بھی ملک مادر پدر آزادی نہیں دے سکتا اور یہ ہمارے لئے بھی ممکن نہیں تھا، یہ ایک انتہائی حساس معاملہ تھا کیونکہ کئی ممالک نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ صرف این جی اوز کے ذریعے ہی پاکستان میں فنڈنگ کریں گے جبکہ ہمارے لئے ضروری تھا کہ غیر ملکی این جی اوز کی سرگرمیوں کو منظم کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت 62 این جی اوز کی باضابطہ رجسٹریشن ہوچکی ہے اور انہیں ایک خاص ضابطہ کار کے تحت کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ 60 این جی اوز باقی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خانانی اینڈ کالیا 2008ء کا کیس ہے،اس کیس کی نئی انکوائری شروع کردی گئی ہے، اس کیس میں ریکارڈ نظرانداز کیا گیا یا تباہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خانانی اینڈ کالیا کیس میں بیوروکریٹ، بزنس مین اور سیاستدان شامل ہیں، منی لانڈرنگ میں لوکل بینک بھی ملوث ہے، خانانی اینڈ کالیا کیس میں جو ریکارڈ نکالا گیا اسے ڈاکومنٹ نہیں کیا گیا، انہوں نے کہا کہ خانانی اینڈ کالیا کیس کی انویسٹی گیشن کرنیوالے آفیسر سے بھی تحقیقات ہونگی،اس حوالے سے یو اے ای، امریکہ اور برطانیہ کو بھی خط لکھ دیئے ہیں، جو بھی مواد ہے اسے ایکٹیویٹ کریں گے، انہوں نے کہا کہ خانانی اینڈ کالیا کیس میں ایف آئی اے اور پیپلز پارٹی کی حکومت ملی ہوئی تھی۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے بلاک شدہ شناختی کارڈز کے مسئلے پر سیاست کی جارہی ہے، شناختی کارڈز کا مسئلہ پنجابی ،پختون ، بلوچی یا سندھی کا نہیں یہ پاکستان کی شہریت کا مسئلہ ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 12سے 14سالوں میں شہریت کو ڑیوں کے حساب سے بیچا گیا، چند ہزار کے تحت نیشنیلٹی بیچی گئی۔ انہوں نے کہا کہ حساس مسائل پر سیاست نہ کی جائے جو لوگ اسے سیاسی اور اینٹی پشتون بنا رہے ہیں ان پر افسوس ہے، انہوں نے کہا کہ کیا آپ نے قومی ایشوز پر قوم کو تفریق کرنا ہے یا جوڑنا ہی ، انہوں نے کہا کہ پشتون پاکستان کا ایک ستون ہیں انہیں ہر جگہ خوش آمدید کہتے ہیں۔

وزیر داخلہ نے نے کہا کہ ایک وزیر اعلیٰ لاک ڈاؤن کرنے آئے تھے، پولیس نے ہاتھ بھی نہیں لگایا پھر بھی کہا گیا کہ پشتونوں کو روکا گیا۔ انہوں نے کہا کہ غیرملکیوں کو شناختی کارڈز کا اجراء جرم ہے، جعلی شناختی کارڈ پر کوئی رعایت نہیں دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ کئی سینئر رہنماء آ کر مجھ سے ملے ان کی بات سنی، جعلی شناختی کارڈز پر پارلیمانی کمیٹی بنا دی ہے مگر پھر بھی بلاجواز پروپیگنڈے سے صوبوں میں نفرت پھیلانے کا سلسلہ چل نکلا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جعلی شناختی کارڈ کو روکنا قومی ذمہ داری ہے، انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کی شہریت لینا انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے چاہے وہ امریکہ ، برطانیہ ہو یا کوئی ترقی پذیر ملک ہو۔انہوں نے کہا کہ 3لاکھ 53 ہزارافراد کے شناختی کارڈ بلاک کیے گئے، ان میں سے ایک لاکھ 74 ہزار تصدیق یافتہ غیر ملکی تھے ، انہوں نے کہا کہ ایک لاکھ 78 ہزار شناختی کارڈز ان بلاک کررہے ہیں یہ شناختی کارڈز صرف 60دن کیلئے بحال کررہے ہیں، ان کے پاس 60 دن کا وقت ہے کہ وہ مقامی نادرا سنٹرز جائیں اور اپنی شہریت کا ثبوت پیش کریں جس کے بعد ان کے شناختی کارڈ مستقل طور پر بحال کردیئے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 1978 سے پہلے کا تصدیق شدہ اراضی ملکیتی سرٹیفکیٹ، 1978 سے پہلے کا اجراء شدہ ڈومیسائل یا اس کی کاپی، محکمہ مال کی جانب سے تصدیق شدہ شجرہ نصب، اپنے یا اپنے کسی رشتے دار کی سرکاری ملازمت کا سرٹیفکیٹ جو 1990 سے پہلے کا ہو، کوئی تعلیمی اسناد جو 1978 سے پہلے کی ہوں، 1978 سے پہلے کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ، 1978 سے پہلے کا اسلحہ، ڈرائیونگ یا کوئی اور لائسنس دکھاکر شہریت کو ثابت کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو پاکستانی نہیں اس کے پاس شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نہیں ہونا چاہئے پشتونوں کے نہیں افغان باشندوں کے کارڈ اور پاسپورٹ کینسل کئے ہیںشناختی کارڈ کے مسئلے کو پشتون مخالف بنانا افسوسناک ہے۔ڈان لیکس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے اعلان کیا کہ ڈان لیکس کی رپورٹ پر اتفاق ہو گیا ہے، رپورٹ دو، تین دن میں وزرات داخلہ کو مل جائیگی، رپورٹ ملنے کے بعد وزیر اعظم کو پہنچا دوں گا، دو، چار دنوں میں میڈیا کو تسلی بھی ہو جائیگی۔

کرنل حبیب ظاہر کے اغواء کے حوالے سے وزیر داخلہ نے کہا کہ اغواء کے کیس میں وہی ہوا جس کا شک ظاہر کیا تھا، بدقسمتی سے تیسرے ملک کی سرزمین استعمال کی گئی، انہوں نے کہا کہ نیپال پاکستان کیساتھ تعاون کر رہا ہے، کرنل ظاہر کا کیس منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایک شخص کو دھوکہ دے کر اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھایا گیا ، انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے تمام ادارے کوارڈینیشن کیساتھ کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد سے اٹھائے گئے شخص کے بارے میں کچھ شواہد ملے ہیں، پولیس اسے جلد عدالت میں پیش کریگی، سندھ حکومت وفاقی حکومت سے جو مدد مانگے گی اسے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو اٹھانا گورنمنٹ کی پالیسی نہیں، پیپلز پارٹی کو کانٹا بھی چبھ جائے تو ذمہ داری وزارت داخلہ پر ڈال دی جاتی ہے، پیپلز پارٹی کی ہر بات کا جواب نہیں دے سکتا۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں کیا ہو رہا ہے یہ وزیر اعلیٰ کی ذمہ داری ہے، لوگوں کا غائب ہونا خلاف قانون ہے اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم، ایان علی، مشرف کو ای سی ایل سے نکالنے کا فیصلے کس نے کیا عدالت کے فیصلوں کو ڈیل کا نتیجہ قرار دینا بڑی زیادتی ہے۔وزیر داخلہ نے مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں مبینہ گستاخی پر طالبعلم کی ہلاکت کے واقعے کو وحشیانہ قتل قرار دیتے ہوئے کہا کہ مشال خان کا قتل سفاکیت کی انتہا ہے، مشال خان کے قتل کے معاملے میں مذہب کا غلط استعمال کیا گیا اس سے بہت غلط پیغام گیا ہے کیوں کہ اسلام میں غیرمسلم سے بھی زیادتی کی اجازت نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اگر کسی پر لگایا گیا الزام درست بھی ہے تو اس کا ایک طریقہ کار موجود ہے، ایسا تو وہاں ہوتا ہے جہاں جنگل کا قانون ہو۔انہوں نے کہا کہ اس واقعے پر صوبائی حکومت نے عدالتی تحقیقات کا جو فیصلہ کیا ہے وہ بالکل درست ہے اور ہمیں عدالتی تحقیقات کا انتظار کرنا چاہئے۔ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے چودھری نثار نے کہا کہ دنیا بھر میں آزادی اظہار رائے کی اجازت دی جاتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اسلام کی مقدس ترین ہستیوں کو ہی نشانہ بنانا شروع کردیا جائے۔

سوشل میڈیا پر حضورؐکی شان میں جو گستاخی کی گئی وہ ناقابل بیان ہے۔ میرے سامنے جو رپورٹ پیش کی گئی مجھ سے دو سطروں سے آگے پڑھی ہی نہیں گئی۔ اس معاملے پر میں نے اسلامی ممالک کے سفیر بلائے اور ان سب کو ایک ہی کاپی دی کیونکہ مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اس گستاخانہ مواد کی فوٹو کاپیاں کروا سکوں۔ انہوں نے کہا کہ فیس بک کے وائس پریزیڈنٹ اس معاملے پر مذاکرات کیلئے آئندہ ماہ پاکستان آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ سوشل میڈیا سے زیادہ تر قابل اعتراض مواد ہٹانے میں کامیاب رہی ہے تاہم ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ یہ مواد دوبارہ سوشل میڈیا پر نہ آئے۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ہمیں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا تعاون درکار ہے، پاکستان اس حوالے سے ایک کانفرنس کے انعقاد کیلئے او آئی سی کیساتھ مل کر کام کررہا ہے اور امید ہے کہ رمضان کے بعد اس کانفرنس کا انعقاد ہوگا۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ کلبھوشن یادیو کوئی عام بھارتی شہری نہیں تھا بلکہ وہ ایک جاسوس تھا یہی وجہ ہے کہ بھارت کو اس تک قونصلر رسائی نہیں دی گئی۔انہوں نے کہا کہ بھارت میں چھوٹے موٹے مسئلے پر پھنسنے والے پاکستانیوں تک قونصلر رسائی نہیں دی جاتی یہی وجہ ہے کہ ہم نے بھی بھارت کی درخواست مسترد کی۔انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ رینجرز اختیارات سے متعلق حکومت سندھ سے رابطے میں ہے، کراچی کے امن کیلئے رینجرز کا کام جاری رہنا چاہئے، کراچی میں قیام امن کیلئے رینجرز کاکردار کلیدی ہے،رینجرز اختیارات سے متعلق نئے نوٹی فکیشن کااجرا سندھ حکومت جلد کر دیگی۔