میٹرو اورنج لائن منصوبہ کیس:

تاریخی عمارتیں قومی ورثہ ،نقصان ناقابل برداشت ہے، سپریم کورٹ دیسی طریقے سے جگاڑ سے کام نہیں چلے گا،جسٹس شیخ عظمت کے ریمارکس

جمعرات 13 اپریل 2017 17:26

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعہ اپریل ء) اور نج لائن میٹرو ٹرین منصوبے لاہور سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ دیسی طریقے یا جگاڑ سے کام نہیں چلے گا ، میٹرو ٹرین منصوبے سے کسی ایک تاریخی عمارت کا نقصان بھی ناقابل برداشت ہے جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ تاریخی ورثہ پاکستانی عوامی کی ملکیت ہے جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ قومی ورثے کو بچانے کے لیے ہر ممکن کو شش ہو نی چاہیے ۔

جمعرات کو اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید ، جسٹس مقبول باقر ،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل پانچ رکنی بنچ نے کی ، کیس کی سماعت شروع ہوئی تو شہری تنظیموں کی وکیل عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ تعمیرات پر تحفظات کو دور کرنا حکومت کا کام ہے ہمیں مک مکا نہیں کرنا ،پنجاب حکومت تاریخی ورثہ کی اہمیت کو سمجھ نہیں سکی ہے ،تاریخی عمارتوں کی دو سو فٹ حدود میں کسی کو ٹانگہ بھی کھڑا کرنے کی اجاز نہیں لیکن میٹرو ٹرین کے لیے این و سی جاری کردیا گیا ہے ، لاہوریوں کو اپنے تاریخی شہر پر فخر ہے ، ٹریک کے ستونوں سے تاریخی عمارتوں کی خوبصورتی ختم ہو جائے گی ،اگر قانون پر عمل نہیں کرنا تو اسے ختم کردیں ،انہوں نے مزید کہا کہ تاریخی ورثہ ختم ہو گیا تو دوبارہ نہیں بن سکتا،اس پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ تاریخی ورثہ پاکستانی عوامی کی ملکیت ہے جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے کا کہنا تھا کہ ٹرین سیدھی بھی چلائی جا سکتی تھی لیکن سیفٹی کے لیے موڑ دیا گیا ہے ،اس پر عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اور عدالت مطمئن ہیں توہمیں کوئی اعتراض نہیں ،اس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہ لین دین کا مقدمہ نہیں مقدمے کا ہر پہلو سے جائزہ لیں گے ،تمام پہلو کو دیکھ کر ہی کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں ،انصاف کی فراہمی کے لیے تما م قانونی پہلو کا جائزہ لیں گے جبکہ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ منصوبے سے حوالے سے سوالات کے جوابات آنے ہیں ،پینوراما مارکیٹ جہاں بنی ہے وہاں بھی تاریخی عمارت تھی ،پینوراما سینٹر کی تعمیر کے وقت اس تاریخی عمارت کو گھرایا گیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی عمارتوں کو بھی تباہ کردیا جائے جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے عاصمہ جہانگیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بیک فٹ کے بجائے فرنٹ فٹ پر کھیل رہی ہیں ، جس پر عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ ہمیں کمیٹی میں شامل کرنے کے لیے رابطے کیے جارہے ہیں ،دوران سماعت عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ اگر قانون پر عملدرآمد نہ ہو تو قوانین بنانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی اس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ قومی ورثے کو بچانے کے لیے ہر ممکن کو شش ہو نی چاہیے جس پرعاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ ہم آج ہیں کل نہیں ہمیں مستقبل کی نسلوں کے لیے قومی ورثے کو بچانا ہے ،جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ٹریک کوالٹی اور وہیلزکی تعداد کا بھی اندازہ کرنا ہو گا اور دوسرے فریق کو جواب الجواب میں اس حوالے سے عدالت کو آگاہ کرنا ہو گا ،جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ دیسی طریقے یا جگاڑ سے کام نہیں چلے گا جبکہ عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ اگر ٹرین کے گزرنے سے نقصان نہیں ہو گا تو بنالیں۔

(جاری ہے)

جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ٹرین منصوبے سے کسی ایک تاریخی عمارت کا نقصان قابل برداشت نہیں، اس پر عاصمہ جہانگیر نے کہ اگیارہ تاریخی عمارتوں کو منصوبے سے نقصان ہو گا،جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ہمیں ایک تاریخی عمارت کا نقصان بھی قبول نہیں،تاریخی ورثہ کے تحفظ پر کوئی جھگڑا نہیں ہے ،عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھاکہ حکومت نے انتخابی مہم چلانی ہے تو پیسہ بے شک لگائیں لیکن شہر کے ورثہ کو تبدیل نہ کریں، اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ انتخابی مہم کے لیے ایسا نہیں کرنا چاہیے،اس پر عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ پیسہ کسی اور جگہ سے بھی بن جائے گا اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ تھوڑی شرارتی ہیں اس پر عاصمہ جہانگیر نے جسٹس عظمت سعید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مائی لارڈ،یہ آپ سے ہی سیکھا ہے ، دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن کا مزید کہنا تھا کہ مو نجوداڑواورہڑپہ کی کیس سٹڈی کسی نے ہے جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا کہ انجینئرکووہاں کچھ سمجھ ہی نہیں آیا،ہڑپہ کے ایریاکوختم کر کے وہاں ٹریک بچھادیا،اس کوعلم ہی نہیں کہ اس نے وہاں کتنابڑاظلم کیاہے ۔

رپورٹ میں لکشمی کاذکرکیے بغیر ہی این اوسی جاری کروالیاگیا، جبکہ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ یونیسکوکی140افراد کوویزوں کااجرانہیں کیاجارہا،یونیسکوممبرزنے یہاں آکرجلوس نہیں نکالناصرف جائزہ لیناہے ،قومی ورثے کاتحفظ ہمارافرض ہے ،عاصمہ جہانگیر کے دلائل مکمل ہونے پر سول سوسائٹی کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہلاہور ہائی کورٹ نے مجھے سنے بغیردرخوادست خارج کی ،دوران سماعت وکیل کی جانب سے اونچی آواز میں دلائل دینے پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ وکیل جب اونچی آواز میں بات کرتاہے تو سمجھ آتی ہے کی دلائل ختم ہوچکے ہیں،جب آواز اونچی ہوتوسمجھ لیں قانون نے ساتھ چھوڑ دیاہے ،غلط دلیل صحیح دلیل کوختم کردیتی ہے،ادھرادھر کی باتیں نہ کریں آپ اپنی درخواست کے مطابق دلائل دیں ،مسئلہ کشمیرباقی ہے اس پر بھی بات کرلیں ،پھر کلبھوشن یادو پر بھی بحث کریں،ایک کرنل صاحب غائب ہیں ان پر بھی عدالت کو آگاہ کریں اس پر اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے ، عدالت عظمیٰ نے عدالتی وقت ختم ہونے پر کیس کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی ہے آئندہ سماعت پر سول سوسائٹی کے وکیل اظہر صدیق اپنے دلائل جاری رکھیں گے ۔

متعلقہ عنوان :