عوام میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد اور مقدس ترین ہستیوں کی بے حرمتی پر سخت تشویش اور اشتعال پایا جا تاہے،چوہدری نثار

ایسے بیہودہ اور ناقابلِ بیان مواد کی تشہیر کسی بھی مسلمان کے لئے نا قابل برداشت ہے عالمِ اسلام کی سطح پر اس امر کا موثر نوٹس نہیں لیا جا رہا او آئی سی گستاخانہ مواد کی روک تھام اور اسلام فوبیا کے رجحانات کی حوصلہ شکنی کے لئے مسلم امہ کی آواز بنے،وزیر داخلہ کی او آئی سی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر یوسف احمد العثمین سے ملاقات او آئی سی سیکرٹری جنرل کاکشمیر کے مسئلے پر پاکستانی موقف کی حمایت جاری رکھنے کا اعادہ

منگل 11 اپریل 2017 23:38

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ بدھ اپریل ء) وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ گزشتہچند مہینوں سے سوشل میڈیا پر ناموسِ رسول ؐ کے حوالے سے ایسے بیہودہ اور ناقابلِ بیان مواد کی تشہیر کی جا رہی ہے جو کسی بھی مسلمان کے لئے نا قابل برداشت ہے، پاکستان کی عوام میں اس گستاخانہ مواد اور مقدس ترین ہستیوں کی بے حرمتی پر سخت تشویش اور اشتعال پایا جا تاہے۔

وزیرِ داخلہ نے کہا کہ پاکستانی مسلمانوں کے دل میں اس بات کا شدید دکھ ہے کہ عالمِ اسلام کی سطح پر اس امر کا موثر نوٹس نہیں لیا جا رہا۔ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ دنیا کے ہر کونے میں آباد 1.6ارب مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اپنی سطح پر یہ مسئلہ انٹرنیٹ پرسروس فراہم کرنے والی بین الاقوامی کمپنیوں سے اٹھایا ہے اور اس کھلی اور دیدہ دلیری سے روا بے حرمتی میں کچھ تعطل آنے میں کامیابی ہوئی ہے مگر اس کا موثر اور دیرپا حل عالم اسلام کی مشترکہ کاوشوں سے ممکن ہے اس لیے او آئی سی کی سطح پر اس سلسلے میں مشترکہ لائحہ عمل مرتب اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے موثر حکمت عملی ترتیب دی جا ئے۔

(جاری ہے)

وزیرِ داخلہ نے یہ بات او آئی سی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر یوسف احمد العثمین سے ملاقات کے دوران کہی۔ ملاقات میں سیکرٹری داخلہ اور چیئرمین پی ٹی اے کے علاوہ اوآئی سی سیکرٹیریٹ اور وزارتِ خارجہ کے سینئر افسران بھی موجود تھے۔ وزیرِ داخلہ نے کہا کہ او آئی سی گستاخانہ مواد کی روک تھام اور اسلام فوبیا کے رجحانات کی حوصلہ شکنی کے لئے مسلم امہ کی آواز بنے۔

انہوں نے کہا کہ ناموسِ رسالت کا تحفظ نہ صرف او آئی سی میں شامل تمام اسلامی ممالک کی مذہبی اور قانونی ذمہ داری ہے بلکہ دنیا کے طول و ارض میں پھیلے کروڑوں مسلمانوں کے دل کی آواز ہے جو بجا طور پر یہ توقع کرتے ہیں کہ او آئی سی بین الاقوامی فورمز پر مسلمانوں کے جذبات اور تحفظات کی موثر عکاسی کرے۔ وزیرِ داخلہ نے کہا کہ اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی فورمز اور سوشل میڈیا انتظامیہ اور متعلقہ حکومتوں سے یہ معاملہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے گستاخانہ مواد کی تشہیر کی روک تھام کے سلسلے میں او آئی سی کے تحت مسلم دنیا کے تکینکی وسائل برؤے کار لائیں جائیں اور اس ضمن میں ایک ادارہ جاتی جامع نظام قائم کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ تمام مسلم ممالک کو مل کرسوشل میڈیا انتظامیہ کو اس بات کا پابند بنانا ہوگا کہ وہ مذہبی دل آزاری سے متعلقہ قوانین کی روک تھام کے لئے موثراقدامات لیں۔ضرورت پڑنے پرکوئی بھی قدم مشترکہ طور پر اٹھایا جائے۔ وزیرِ داخلہ نے کہا کہ تکنیکی وسائل سے متعلقہ مشترکہ ریسورس سنٹرکے قیام کے ساتھ ساتھ مذہبی دل آزاری، منافرت اور گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کاروائی کو یقینی بنانے کے لئے بھی او آئی سی کی سطح پر ایک مشترکہ نظام وضع کیا جائے تاکہ متعلقہ حکومتوں پر زور دیا جا سکے کہ وہ ایسے عناصر کے خلاف اپنے قوانین کے تحت کاروائی کریں۔

وزیرِ داخلہ نے کہا کہ جس انداز میں آزادی اظہارکی آڑ میں سوشل میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کی مقدس ترین شخصیات کی بے حرمتی کی جا رہی ہے وہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔ ایک ایسے وقت پر جب پوری دنیا انتہا پسندی اور تشدد پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحانات پر قابو پانے اور دہشت گردی کے خلاف بر سر پیکار ہے ایسی روش سے نہ صرف شدت پسندی اور مذہبی منافرت کی آگ مزید بھڑکے گی بلکہ بین المذاہب اور مختلف اقوام کے درمیان اختلافات کی خلیج مزید بڑھے گی۔

وزیرِ داخلہ نے کہا کہ آزادی اظہار سے متعلق دوہرا معیارکسی صورت قابل قبول نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا بین الاقوامی برادری کو اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کاتحفظات کا مدواہ عالمی امن اور تشدد اور انتہا پسند عناصر کی حوصلہ شکنی کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ وزیرِ داخلہ نے کہا کہ یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سب سے بڑا شکاربننے والی کمیونٹی کو نہ صرف اسلام فوبیاجیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ ان کے مذہبی جذبات مجروح اور انکی مقدس ترین ہستیوں کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔

وزیرِ داخلہ نے کہا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے گستاخانہ مواد کے معاملے پر تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ایسے مواد کا بیشترحصہ غیر ممالک سے انٹرنیٹ کے ذریعے اپ لوڈ کیا جاتا ہے اور بیرونی دنیا سے ان عناصر کو مالی و دیگر وسائل مہیا کیے جاتے ہیں جو ایسے مکروہ فعل میں ملوث ہیں۔ ملاقات میں حکومت پاکستان کی جانب سے گستاخانہ مواد کو روک تھام کے سلسلے میں کئے جانے والے اقدامات اور او آئی سی سے متعلقہ دیگر امور بھی پر گفتگو ہوئی۔

کشمیر کے مسئلے پراو آئی سی کی جانب سے پاکستان کے اصولی موقف کی مسلسل حمایت کو سراہتے ہوئے وزیرِ داخلہ نے کہا کہ حق خود ارادیت کو دبانے کی غرض جس انداز میں معصوم جانوں کا ریاستی سطح پرقتل عام کیا جا رہا ہے وہ پوری دنیا اور خصوصا انسانی حقوق کی علمبردارحکومتوں اور اداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو ستر سال سے جاری انسانی حقوق کی سنگین پامالی پر خاموش تماشائی ہیں۔

ستر دہائیوں سے التوا کا شکار یہ معاملہ تمام متعلقہ بین الاقوامی اداروں کی افادیت اور خصوصا تصفیہ طلب معاملات میں انکے کردار اور صلاحیتیوں پر سوالیہ نشان ہے۔ سیکرٹری جنرل او آئی سی نے گستاخانہ مواد کی روک تھام کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے معاملے پر جو کہ امت مسلمہ کے لئے اہم ترین مسئلہ ہے حکومت پاکستان اور خصوصاً وزیرِ داخلہ کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات لائق ِ تحسین ہیں۔

انہوں نے سوشل میڈیا سے بہت سار امواد ہٹانے پر وزیرِ داخلہ کو مبارکباد دی۔ کشمیر کے مسئلے پر او آئی سی کی جانب سے پاکستانی موقف کی حمایت جاری رکھنے کا اعادہ کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ محض ایک مخصوص علاقے کا نہیں بلکہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت اور انکے بنیادی حقوق کا ہے۔