سرگودھا میں قتل کی لرزہ خیز واردات: دربار پر 20 مریدین کو موت کے گھاٹ اتار دیاگیا،جاں بحق ہونیوالے 16 مرد اور 4 خواتین شامل،مرکزی ملزم اور اسکے4 ساتھی گرفتار

متولی عبدالوحید نے مقتولین کو پہلے نشہ آور چیز کھلا کر بیہوش کیا بعد ازاں انہیں ڈنڈوں اور خنجروں سے مار مار کر ان کی جان لے لی،ملزمان نے اعتراف جرم کرلیا، پولیس حکام میرے پیر اور مجھے زہر دیئے جانے کا شک تھا،ملزم عبدالوحید کا اعترافی بیان

پیر 3 اپریل 2017 11:40

سرگودھا(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔3اپریل ۔2017ء)صوبہ پنجاب کے ضلع سرگودھا کے نواحی گاوٴں میں قائم درگاہ کے 'متولی' نے اپنے متعدد مریدوں کو لاٹھی اور چاقو کے وار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں کم سے کم 20 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے،مر نے والو ں میں 5 افراد کا تعلق ایک ہی خا ندا ن سے ہے ،گدی نشین عبدالوحید سمیت 3افراد کو گرفتار کر لیا، ملزمان نے اعتراف جرم کرلیا، قتل کیے گئے 8مریدوں کی لاشیں پوسٹ مارٹم کے بعد ورثا کے حوالے کر دی گئیں،وزیراعلیٰ پنجاب نے واقعہ کا نوٹس لے کر چوبیس گھنٹوں میں رپورٹ طلب کرلی ، صدر مملکت ، وزیراعظم سمیت سیاسی ومذہبی شخصیات نے واقعہ پرگہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔

حکام کے مطا بق سرگودھا کے تھانہ صدر کے علاقے 95 شمالی میں دیرینہ رنجش پر دربار کے متولی نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے 4 خواتین اور 16 مردوں کی جان لے لی۔

(جاری ہے)

ڈی پی او سرگودھا کے مطابق دربار کے متولیعبدالوحید نے مقتولین کو پہلے نشہ آور چیز کھلا کر بیہوش کیا جس کے بعد انہیں ڈنڈوں سے مار مار کر ان کی جان لے لی۔پولیس کے مطابق مرکزی ملزم یوسف اور اس کے 2 ساتھیوں کو گرفتار کرتے ہوئے لاشوں کو اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔

سرگودھا کے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) لیاقت علی چھٹہ نے بتایا کہ واقعے کی اطلاع ڈی ایچ کیو ہسپتال سرگودھا میں آنے والی ایک زخمی خاتون نے دی تھی، ان کا کہنا تھا یہ خاتون ان دیگر 3 زخمی افراد میں شامل تھیں جو درگاہ سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔انھوں نے بتایا کہ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری درگارہ پہنچی اور درگاہ کے متولی کو اس کے 4 ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا جبکہ 19 افراد کی لاشیں برآمد کرکے انھیں اور کچھ زخمیوں کو ڈی ایچ کیو ہسپتال منتقل کیا گیا۔

لیاقت علی چٹھہ نے بتایا کہ واقعے کی ابتدائی تفتیش کے مطابق درگاہ علی محمد گجر 2 سال قبل آبادی سے دور تعمیر کی گئی تھی، اور ابتدائی تحقیقات میں واقعے میں گدی نشینی کے تنازع کا پہلو نظر نہیں آتا۔خیال رہے کہ اس سے پہلے اطلاعات آرہی تھیں کہ مذکورہ درگاہ پر دو گروپوں کے درمیان گدی نشینی کے معاملے پر کچھ عرصے سے تنازع چل رہا تھا۔ڈی سی سرگودھا نے بتایا کہ دو سال قبل ہی سے لاہور کے رہائشی اور خود کو درگاہ کا موجودہ متولی کہلوانے والے عبدالوحید نے یہاں آکر درگاہ سے منسلک لوگوں کو درس دینے کا آغاز کیا تھا۔

جس کے بعد اس کے عقیدت مندوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ عبدالوحید کی ذہنی حالت درست معلوم نہیں ہوتی اور اطلاعات کے مطابق وہ درگاہ پر آنے والے اکثر مریدوں کو تشدد کا نشانہ بنایا کرتا تھا۔تاہم درگاہ کے قریب دیہات کے رہائشیوں نے متولی کی ذہنی حالت خراب ہونے کے حوالے سے خبروں کی تردید کی ہے۔ڈی سی سرگودھا کے مطابق زخمی خاتون نے پولیس کو بتایا تھا کہ متولی نے گذشتہ روز سے اپنے مریدوں کو بلا کر قتل کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزم اپنے مریدوں کو فون کرکے بلاتا تھا اور ایک ایک کرکے ان کو کمرے میں بلا کر قتل کرتا رہا۔ڈی سی نے بتایا کہ عبدالوحید مریدین کو نشہ آور جوس پلا کر بیہوش کرتا اور پھر انھیں برہنہ کرکے لاٹھی اور چاقو کے وار سے ان کو تشدد کا نشانہ بناتا تھا یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوجاتے اور بعد ازاں ان کی لاشوں کو ایک کمرے میں جمع کرتا رہا۔

انھوں نے بتایا کہ جاں بحق ہونے والے افراد میں 16 مرد اور 3 خواتین شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بعد ازاں مقامی افراد نے درگاہ کے اطراف میں ایک برہنہ لاش کی نشاندہی کی جس کا جسم جزوی طور پر جلا ہوا تھا، پولیس نے لاش کو تحویل میں لے کر ہسپتال منتقل کیا جس کے بعد ہلاکتوں کی تعداد 20 ہوگئی۔ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ دو مقتولین کا تعلق اسلام آباد، ایک کا میانوالی سے ہے جبکہ دیگر مقتولین مقامی رہائشی ہیں اور ان کی شناخت کا عمل جاری ہے۔

ہسپتال ذرائع کا کہنا ہے اس کے علاوہ قتل کیے جانے والوں میں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے دو بھائی اور ایک بہن بھی شامل ہے۔واضح رہے کہ واقعے سے متعلق ابتدائی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ نامعلوم افرد نے درگاہ پر موجود مریدیں کو نشہ آور مشروب اور کھانا کھلایا جس سے وہ بے ہوش ہوگئے اور انھیں رات گئے سوتے میں قتل کردیا گیا۔ادھر مقامی افراد کا کہناہے کہ عبدالوحید مہینے میں ایک دو بار درگاہ پر آتا تھا، مریدوں پر تشدد کر تا تھا، انہیں برہنہ کر کے آگ بھی لگاتا تھا۔

واقعے کی اطلاع ملتے ہی چک 95 شمالی اور اطراف کے دیہاتوں میں خوف و ہراس پھیل گیا جبکہ مزید کسی ناخوشگوار واقعے کو روکنے کیلئے پولیس کی بھاری نفری کو درگاہ پر تعینات کردیا گیا۔اس کے علاوہ رپورٹ میں ڈی سی کے حوالے سے بتایا کہ گرفتار ہونے والا درگاہ کا متولی عبدالوحید الیکشن کمیشن کا ملازم ہے اور اس سے متعلقہ ادارے کا کارڈ بھی برآمد ہوا ہے۔

گرفتار ملزمان نے اعتراف جرم کرلیا ہے مزید تفتیش جاری ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق قتل کئے گئے11افراد کا تعلق سرگودھا ،2کا اسلام آباد ،2کا تعلق لیہ ،ایک کا میانوالی ، ایک اور شخص کا تعلق پیر محل سے ہے۔ ایک خاتون کی شناخت نہیں ہو سکی ۔ مرنے والوں میں نصرت بی بی‘ رخسانہ بی بی‘ شازیہ عمران‘ اشفاق‘ جاوید‘ بابر‘ خالد‘ ڈی ایس پی غلام شبیر کا بیٹا محمد حسین‘ جمیل‘ ندیم ‘ زاہد ملنگ‘ شاہد‘ سیف الرحمن ‘ محمد گلزار وغیرہ شامل ہیں جبکہ زخمیوں میں مریم بی بی‘ کشور بی بی‘ کاشف وغیرہ شامل ہیں پولیس نے پورے علاقے کو گھیرے میں لیکر تفتیش شروع کردی۔

ادھروزیراعلی پنجاب شہبازشریف نے سرگودھا میں 20افراد کے قتل کے واقعے کے بعد صوبائی وزیر اوقاف زعیم قادری کو موقع پر پہنچنے کی ہدایت کردی اور آر پی او سرگودھا کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیدی ہے۔وزیراعلی پنجاب نے انکوائری کمیٹی کو ہدایت کی ہے کہ وہ 24گھنٹے میں اپنی رپورٹ پیش کرے ،انہوں نے سرگودھا واقعے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ۔

شہبازشریف نے انتظامیہ کو ہدایت کی کہ زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں اور ملزمان کو فورا گرفتار کیا جائے۔وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا کہ واقعہ پر ہر آنکھ اشکبار ہے اور اس حوالے سے انکوائری کی جارہی ہے جلد واقعہ کی تہہ تک پہنچ جائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ زخمیوں کو بہترین طبی امداد دی جارہی ہے اور پولیس واقعہ کی ہر پہلو سے تفتیش کررہی ہے۔

صدر مملکت ممنون حسین ، وزیراعظم نوازشریف ، وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف سمیت سیاسی مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے قیمتی جانی ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا ہے ۔بیس مریدوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے ملزم عبدالوحید نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا کہ اسے شک تھا کہ مقتول افراد اسے زہر دینا چاہتے ہیں۔تفصیلات کے مطابق ڈپٹی کمشنر سرگودھا لیاقت علی چٹھہ کے مطابق ملزم نے اعتراف جرم کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے تمام افراد کو پہلے نشہ آور چیز پلائی اور پھر ساتھیوں کے ساتھ مل کر ڈنڈوں اور خنجروں کے وار کر کے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔

ملزم کا کہنا ہے کہ اسے شک تھا کہ اس کے پیر علی احمد گجر، جو 2سال پہلے انتقال کر گیا تھا، کو زہر دیا گیا تھا اور یہ شبہ بھی تھا کہ اب اسے بھی زہر دینے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے، اس لئے اس نے اپنے پیر کے قتل کا بدلہ لینے اور خود کو بچانے کیلئے ان تمام افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔