سینیٹ نے پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2017 ء کثرت رائے سے منظورکرلیا

مطلوبہ ارکان کی عدم موجودگی کی وجہ سے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی منظوری التوا کا شکار ہوگئی فوجی عدالتوں میں دو سالہ توسیع کیلئے آئین میں ترمیم کا بل اگلے ہفتے 28 مارچ کو دوبارہ سینیٹ میں پیش کیا جائیگا جے یو آئی (ف) کے سینیٹر مولانا عطاء الرحمن کی جانب سے بل کی بعض شقوں میں ترمیم کو ایوان نے مسترد کردیا گیا مذہب کو ہدف بنانے سے انتشار پھیلے گا ،ْ ہم اتحادی ہیں لیکن فوجی عدالتوں کے حق میں نہیں ،ْمولانا عطاء الرحمن دہشت گردوں کے خلاف جنگ ابھی جاری ہے ،ْغیر معمولی حالات کی وجہ سے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے ،ْ زاہد حامد ملک کی عدالتیں ٹھیک کام کر رہی ہوتیں تو فوجی عدالتوں کی ضرورت نہ ہوتی ،ْ سینیٹر اعظم سواتی موضوع تک محدود رہیں ،ْچیئر مین سینٹ میاں رضا ربانی کی اعظم سواتی کو ہدایت

بدھ 22 مارچ 2017 19:33

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعرات مارچ ء)قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2017 ء کثرت رائے سے منظور کرلیا ہے تاہم مطلوبہ ارکان کی عدم موجودگی کی وجہ سے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی منظوری التوا کا شکار ہوگئی ہیفوجی عدالتوں میں دو سالہ توسیع کے لیے آئین میں ترمیم کا بل اگلے ہفتے 28 مارچ کو دوبارہ سینیٹ میں پیش کیا جائے گا جبکہ جے یو آئی (ف) کے سینیٹر مولانا عطاء الرحمن کی جانب سے بل کی بعض شقوں میں ترمیم کو ایوان نے مسترد کردیا گیا ۔

بدھ کو سینٹ اجلا س کے دور ان وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کی جانب سے آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2017پیش کیا گیا جس پر جمعیت علماء اسلام ف) کے سینیٹر مولانا عطاء الرحمن ،ْ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) کے جہانزیب جمال کی جانب سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا گیا جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے بل کو ضروری قرار دیا۔

(جاری ہے)

وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں مختلف وقتوں میں ترمیم ہوتی رہی، 2017ء میں فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہوگئی تاہم دہشت گردوں کے خلاف جنگ ابھی جاری ہے اس لئے غیر معمولی حالات کی وجہ سے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہاکہ فوجی عدالتوں کی افادیت ثابت ہوئی ہے اور اس مسئلے پر پارلیمانی جماعتوں کے کئی اجلاس ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں اس بل کے حوالے سے وسیع تر اتفاق رائے ہوا ہے۔

یہ وہی بل ہے جو 2015ء میں پاس ہوا تھا اب اس میں چار اضافے کئے گئے ہیں۔ وفاقی وزیر زاہد حامد نے کہا کہ کلاز تین اور چار میں بھی ترمیم کی گئی ہے اور مذہب کے استعمال کی بجائے مذہب کے غلط استعمال کے الفاظ شامل کئے ہیں۔اجلاس کے دور ان ارکان نے بل کی حمایت اور مخالفت میں اظہار خیال کیا جس کے بعد چیئرمین نے تحریک پر ایوان کی رائے حاصل کی۔ ارکان کی اکثریت نے تحریک کی منظوری دیدی جس کے بعد چیئرمین نے بل میں ترمیم پیش کرنے کیلئے مولانا عطاء الرحمن کو تحریک پیش کرنے کی اجازت دی۔

بل کی مخالفت کرتے ہوئے جے یو آئی کے سینیٹر عطاء الرحمن نے کہاکہ مذہب کو ہدف بنانے سے انتشار پھیلے گا، انہوںنے کہاکہ ہم اتحادی ہیں لیکن فوجی عدالتوں کے حق میں نہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ مذہب اور مدارس کو کیوں ہدف بنایا جارہا ہی تاہم مولانا عطاء الرحمن کی جانب سے بل کی بعض شقوں میں ترمیم کو مسترد کردیا اس کے بعد چیئرمین نے بل کی شق وار منظوری حاصل کی۔

وزیر قانون زاہد حامد نے تحریک پیش کی کہ پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء میں مزید ترمیم کا بل پاکستان آرمی (ترمیمی) بل 2017ء منظور کیا جائے۔ ایوان بالا نے بل کی منظوری دیدی تاہم 28ویں آئینی ترمیمی بل کی منظوری کورم پورا نہ ہونے کے سبب مؤخر کردی گئی۔فوجی عدالتوں میں دو سالہ توسیع کے لیے آئین میں ترمیم کا بل اگلے ہفتے 28 مارچ کو دوبارہ سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔

اجلاس کے دور ان چیئرمین سینٹ نے کہا کہ مجھے ابھی مولانا عطاء الرحمن کی طرف سے دو ترامیم موصول ہوئی ہیں۔ میں نے ان کا جائزہ لیا ہے۔ ایک ترمیم کا تعلق آرمی ایکٹ دوسری کا تعلق آئینی ترمیم سے ہے۔ آرمی ایکٹ والی ترمیم رول 106 (1) سے متصادم ہو رہی ہے۔ اس لئے اسے قبول نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری ترمیم تمام ممبران کو فراہم کی جارہی ہے تاکہ وہ اس پر رائے دے سکیں۔

یہ ترمیم قواعد کے تحت درست ہے۔ اجلاس کے دور ان بحث میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ ہمیں اپنے عدالتی نظام میں اصلاحات کرنا ہونگی‘ فوجی عدالتوں کی حمایت کرتے ہیں۔ اجلاس میں سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ میں بھی بجھے ہوئے دل سے پارلیمان کی زبوں حالی کی تصویر پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ملک کی عدالتیں ٹھیک کام کر رہی ہوتیں تو فوجی عدالتوں کی ضرورت نہ ہوتی۔

ہمیں اپنے عدالتی نظام میں اصلاحات لانا ہوں گی۔انہوں نے کہاکہ فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ دے کر ہم اس عمل میں برابر کے کے شراکت دار ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم فوجی عدالتوں کے مسئلے پر حکومت کی حمایت کر رہے ہیںتاہم چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے سینیٹر اعظم سواتی کی تقریر کے دوران موضوع سے ہٹ کر بات کرنے پر انہیں انہیں ٹوک دیا اور کہا کہ وہ موضوع تک محدود رہیں۔

چیئرمین سینٹ نے اعظم سواتی کا قابل اعتراض جملہ بھی کارروائی سے حذف کرا دیا۔ چیئرمین نے ایک موقع پر ایک سینیٹر کا موبائل بجنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ فون ضبط کرلیں گے جبکہ ایک اور سینیٹر کو چیئرمین نے ایوان کے اندر پانی پینے سے روک دیا اور انہیں یاد دلایا کہ یہ قواعد کے خلاف ہے۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ اختیارات پارلیمنٹ کے پاس ہونے چاہئیں اور اسی کی بالادستی ہونی چاہیے۔

ہمارے لوگوں کے خلاف قانون سے ماوراء کارروائیاں ہو چکی ہیں، اختیارات جمہوری اداروں کے پاس ہونے چاہئیں۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ دہشتگردی ضیاء الحق کی پیداوار ہے، عدالتوں کو تحفظ دیں تو دہشتگردی ختم ہو جائے گی۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ اگر ہمارا نظام انصاف ناکام ہو چکا ہے تو اس میں فوج کا کیا قصور ہے۔

دو سال کیوں خاموش رہے، ایم کیو ایم کے سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہا کہ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ فوجی عدالتوں کی ضرورت کیوں پڑی۔ یہ کیا معاملہ ہے کہ حمایت میں ووٹ بھی دے رہے ہیں اور مخالفت بھی کر رہے ہیں۔ کیا ہم آرمی پبلک سکول اور دیگر دہشتگرد حملوں کے واقعات بھول گئے۔ کیا ہم نے دہشتگردوں کو پکڑا‘ نہیں‘ انہیں سزا دی ‘ نہیں ‘ دو سالوں میں کم سے کم کچھ لوگوں کو تو پھانسی کے پھندے پر پہنچایا گیا۔

دو سال میں اگر ہم قانون بنا لیتے تو اس قانون کی ضرورت نہ پڑتی۔ یہ قانون ہماری مجبوری ہے۔ سعید الحسن مندوخیل نے کہا کہ اس بل کی مخالفت میں لمبی چوڑی تقریریں کرنے کی ضرورت نہیں ،ْاللہ نہ کرے دو سال بعد پھر ہم ایسی ہی تقریریں کر رہے ہوں سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ ارکان تو بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن بولنے کے لئے بہت کم لوگ تیار ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ہمارا دل بھی آج بہت بھاری ہے، دو سال بعد پھر فوجی عدالتوں کی منظوری دینا ہماری اجتماعی ناکامی ہے، آج جو مسودہ ہمارے سامنے آرہا ہے یہ پیپلز پارٹی کی مرہون منت ہے۔ ہم نے اپنی بہترین کوششیں کی ہیں اور 2015ء کے مسودے میں کچھ نئی چیزیں شامل کی ہیں۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان میں خودمختار ریاستوں کا ذکر کیا گیا تھا۔

ریاستوں کا لفظ صوبوں کے لئے تھا۔ انہوں نے کہاکہ ان ججوں کو سلام کرتا ہوں جنہوں نے ضیاء اور مشرف کے مارشل لاء کو قانونی حیثیت نہیں دی۔ مشرف نے ان کے ماتھے پر بندوق رکھی پھر بھی انہوں نے مشرف کو نہیں مانا۔ سینیٹر کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ یہ اچھی بات ہے کہ اس قانون کی منظوری مشاورت سے ہوئی۔ اس طرح ہم نے حکومت کو ایک اور موقع دیا ہے کہ وہ دو سال کے اندر عدالتی اصلاحات لائیں۔

انہوں نے کہا کہ میں حکومت سے درخواست کروں گا کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائے۔ ہم نے صرف قومی مفاد کے باعث یہ کڑوا گھونٹ بھرا ہے۔ سینیٹر غوث نیازی نے کہا کہ قوموں کو اس طرح کے مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے فوجی عدالتوں کی ضرورت ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اس بل کی حمایت کرنی چاہیے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ آئینی ترمیم کا تعلق پالیسی کے ساتھ ساتھ ضمیر کے ساتھ ہونا چاہیے۔

محض سیاسی جماعتوں کے سربراہان کے پاس یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ آئینی ترمیم کے حوالے سے فیصلہ کریں۔ میں مجبوری کی حالت میں اس ترمیم کے حق میں ووٹ دے رہا ہوں۔بعد ازاں سینٹ کا اجلاس منگل 28 مارچ کی سہ پہر تین بجے تک کیلئے ملتوی کردیا گیا۔ اس سے قبل گذشتہ روز قومی اسمبلی میں فوجی عدالتوں میں 2 سالہ توسیع کیلئے 28 ویں آئینی ترمیم کا بل دو تہائی اکثریت سے منظور کیا گیا تھا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بل کی حمایت میں 253 ارکان نے ووٹ دیئے تھے جبکہ صرف 4 ارکان نے اس کی مخالفت کی تھی۔قانون کا درجہ حاصل کرنے کیلئے اس بل کو سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کی منظوری درکار تھی۔28ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد ملک بھر میں فوجی عدالتوں کی مدت میں مزید 2 سال کی توسیع ہوجائیگی جس کی مدت رواں برس 7 جنوری کو ختم ہوگئی تھی۔

خیال رہے کہ 16 مارچ 2017 کو فوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سال کی توسیع کیلئے ملک کی تمام پارلیمانی جماعتوں کے درمیان اتفاق ہوگیا تھا۔فوجی عدالتوں کی 2 سالہ خصوصی مدت رواں برس 7 جنوری کو ختم ہوگئی تھی جس کے بعد فوجی عدالتوں کی دوبارہ بحالی سے متعلق سیاسی جماعتوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے۔فوجی عدالتوں کا قیام 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد آئین میں 21 ویں ترمیم کرکے عمل میں لایا گیا تھا۔

متعلقہ عنوان :