حکومت ناموس رسالت کے تحفظ کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گی،جمعہ کو اسلامی ممالک کے سفیروں کی کانفرنس بلائی جائے گی تاکہ سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی ناموس کیلئے مشترکہ لائحہ عمل تیارکیا جاسکے، انٹرنیشنل سوشل میڈیا پر گستاخیوں کا سلسلہ بند نہ ہوا تو سخت ترین اقدام کریں گے، پی سی بی اور ایف آئی اے کو سپاٹ فکسنگ کی تحقیقات کیلئے مل کر کام کرنے کی ہدایت کی ہے، اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے، بکیز کوبھی شامل تفتیش کیا جائے گا اس کے تانے بانے ملک سے باہر جاملتے ہیں، دوسرے ملکوں سے بھی تعاون مانگیں گے

وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان کا پریس کانفرنس سے خطاب

بدھ 22 مارچ 2017 21:09

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعرات مارچ ء) وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان نے کہا ہے کہ حکومت ناموس رسالت کے تحفظ کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گی۔ (کل)جمعہ کو اسلامی ممالک کے سفیروں کی کانفرنس بلائی جائے گی تاکہ سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی ناموس کیلئے مشترکہ لائحہ عمل تیارکیا جاسکے۔

انٹرنیشنل سوشل میڈیا پر گستاخیوں کا سلسلہ بند نہ ہوا تو سخت ترین اقدام کریں گے۔ پی سی بی اور ایف آئی اے کو سپاٹ فکسنگ کی تحقیقات کیلئے مل کر کام کرنے کی ہدایت کی ہے، اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے، بکیز کوبھی شامل تفتیش کیا جائے گا اس کے تانے بانے ملک سے باہر جاملتے ہیں، دوسرے ملکوں سے بھی تعاون مانگیں گے، کوئی صوبہ کسی کی جاگیر نہیں کہ وفاق کو بوریا بستر گول کرنے کی دھمکیاں دے ایسا غیرذمہ دارانہ بیان وزیراعلیٰ کو زیب نہیں دیتا، وکلاء کے پولیس اہلکار پر تشدد کے معاملے پرکمیٹی قائم کردی ہے رجسٹرار ہائیکورٹ اور وکلاء تنظیم سے مل کر مسئلے کا حل نکالا جائے گا، بارکونسلز معاملے کا نوٹس لیں۔

(جاری ہے)

بدھ کو پنجاب ہائوس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ آج تین اہم ایشوز پر حکومتی موقف واضح کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کرکٹرز کے حوالے سے کئی روز سے خبریں گردش کر رہی ہیں ان میں سے کچھ خبریں صحیح ہیں اور کچھ صحیح نہیں ہیں ہم سب محب وطن پاکستانی ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان کی ساکھ کو ایسے واقعات سے جو نقصان بار بار پہنچتا ہے اس کا تدارک کیا جائے۔

سپاٹ فکسنگ ان کرکٹرز کیلئے تشویش کا باعث ہے جنہوں نے اپنا اور ملک کا نام روشن کیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران ہم ایسے افسوسناک واقعات سے گزر چکے ہیں جن کے نتیجے میں 3 کرکٹرز پر پابندی لگی اور انہوں نے غیر ملک میں جیل بھی دیکھی، یہ تضحیک آمیز واقعہ تھا اور اس کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو جانا چاہئے تھا لیکن چند دنوں میں جو کچھ ہوا اس نے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ، ہمیں جوش کی بجائے ہوش سے کام لینا چاہئے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ ایف آئی اے اور پی سی بی میں ٹھن جانے کی خبریں سامنے آئیں، اربوں روپے کے جوئے کی خبروں میں ایف آئی اے کا حوالہ دیا جا رہا ہے جو بالکل غلط ہے، ایسی کوئی بات فی الحال سامنے نہیں آئی، ابھی ابتدائی بیانات لئے گئے ہیں، فرانزک شواہد کا انتظار ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی سی بی اور ایف آئی اے کو ملکر کام کرنے کی ضرورت ہے اس لئے پی سی بی اور ایف آئی اے کو ہدایت کی ہے کہ ملکر اس حوالے سے کام کریں۔

نجم سیٹھی سے بھی اس بارے میں بات ہوئی ہے، دونوں اداروں کے ملکر کام کرنے کا طریقہ کار طے کیا جائے گا اور دونوں ادارے ایک دوسرے کی مدد کرینگے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ یہ تحقیقات منطقی انجام کو پہنچیں تاکہ قوم نے جن کو عزت دی اور وہ تضحیک کا باعث بن رہے ہیں وہ اپنے انجام کو پہنچیں۔ ایف آئی اے اس معاملے کی مکمل تفتیش کرے گی۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے کو کسی ادارے کو درخواست دینے کی ضرورت نہیں ہے، پہلے کئی کیسوں میں عدالت عالیہ کے احکامات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ہدایت کی ہے کہ کرکٹرز کو ہی نہیں بکیز کو بھی شامل تفتیش کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ اس کے تانے بانے ملک سے با ہر ہیں، ہم اپنی کوششیں جاری رکھیں گے اور ان ملکوں سے بھی مدد مانگیں گے، میچ فکسنگ بین الاقوامی جرم ہے۔

بکیز خواہ بھارت میں ہوں یا کہیں اور ان کا پیچھا کیا جائے گا اور اس برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کئے جائیں گے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ دوسرا اہم معاملہ ناموس رسالت کا ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے کچھ عرصہ سے ہمارے مذہب اور مقدس ہستیوں کی تضحیک کی جا رہی ہے اس حوالے سے وزیراعظم اور اعلیٰ عدالتوں کی ہدایت پر وزارت داخلہ فعال کردار ادا کر رہی ہے۔

فیس بک پر توہین آمیز مواد کے معاملے پر اعلیٰ سطحی وفد باہر بھیجا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جمعہ کو پنجاب ہائوس میں تمام مسلم ممالک کے سفیروں کو مدعو کیا گیا ہے اور سوشل میڈیا پر جو ناپاک جسارت کی جا رہی ہے اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے، یہ ملاقات کا یک نکاتی ایجنڈا ہو گا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ آج سعودی سفیر نے الوداعی ملاقات کی ہے، میں نے ان سے بھی یہی کہا ہے کہ یہ صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے اور ہم اس معاملے پر ملکر بات کریں گے تو اس کی اہمیت اور وقعت زیادہ ہو گی۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ مسلم ممالک کے سفیروں کے ساتھ اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا اور مقدس ہستیوں کی ناموس کیلئے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ وزارت خارجہ سے بھی کہا ہے کہ رابطہ عالم اسلامی کا پلیٹ فارم بھی اس مقصد کیلئے استعمال کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ناموس رسالت کا معاملہ بہت سنجیدہ اور حساس ہے اور ناموس رسالتؐ کے تحفظ کیلئے حکومت کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گی، ہمارے لئے اپنے ایمان سے بڑھ کر کوئی معاملہ اہم نہیں، اگر سوشل بالخصوص انٹرنیشنل سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد نہ روکا گیا تو سخت ترین اقدام اٹھائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ سوشل میڈیا کو بند کرنے کی صورت میں دھمکیاں دے رہے ہیں وہ دھمکیاں نہ دیں، ہم جو کرینگے وہ نظر آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی ہم قبول کرتے ہیں لیکن یہ آزادی لامحدود نہیں، ہمارے مذہب کی ناموس پر حملہ کیا جائے گا تو یہ ہماری تضحیک ہو گی، اظہار رائے کی آزادی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہولوکاسٹ کے بارے میں کوئی شک کا اظہار بھی کرے تو مغربی دنیا آسمان سر پر اٹھا لیتی ہے لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ ناموس رسالت کا معاملہ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی عزت نفس کا معاملہ ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ حضور نبی کریمؐ کی ناموس اور مقام و مرتبہ پر زک نہ آنے دینا ہماری ذمہ داری ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ کسی بے گناہ پر الزام نہ لگ سکے۔ انہوں نے کہا کہ تیسرا اہم معاملہ جس پر وہ بات کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ سینئر پولیس افسروں کے وفد نے ان سے ملاقات کر کے اسلام آباد کی عدالتوں کے اندر سیکورٹی مہیا کرنے سے معذرت کی ہے جس کی وجہ ایک پولیس اہلکار پر عدالت کے اندر وکلاء کا تشدد ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ایک ناکے پر موٹر سائیکل سوار اور شلوار قمیض میں ملبوس وکیل کو روکا گیا اور موٹر سائیکل کاغذات نہ ہونے پر بند کر دیا گیا، پھر یہ موٹر سائیکل واپس بھی کر دیا گیا اور صلح بھی ہو گئی لیکن دو دن بعد وکیل نے عدالت میں مقدمہ کر دیا اور کانسٹیبل جب عدالت میں پیش ہوا تو اس پر عدالت کے اندر تشدد کیا گیا۔ اس واقعہ پر پولیس میں بہت تشویش پائی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس اہلکار جان کی بازی لگا کر اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں ان کیخلاف شکایت ہو سکتی ہے لیکن اس کے ازالے کا طریقہ کار موجود ہے۔ میں نے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ عدالتوں کی سیکورٹی پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جا سکتا اس لئے پولیس عدالتوں میں اپنے فرائض کی انجام دہی جاری رکھے اس معاملے کے حل کیلئے کمیٹی بنا دی ہے جو عدالت عالیہ کے رجسٹرار اور وکلاء نمائندوں سے ملکر مسئلے کا حل نکالے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس واقعہ پر پولیس میں بہت تشویش پائی جاتی ہے، پولیس کے علاوہ میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ بھی اس طرح کے واقعات ہو چکے ہیں، چیف جسٹس پنجاب ہائی کورٹ اور کئی سینئر جج بھی اس حوالے سے اظہار خیال کر چکے ہیں۔ وکلاء قابل عزت اور قابل احترام ہیں اور جمہوریت اور قانون کی بالادستی کیلئے ان کی بڑی تاریخی جدوجہد ہے لیکن قانون کو خواہ اقتدار کے نشے میں کوئی سیاستدان توڑے یا وکیل یا وردی والا سب برابر ہیں۔

وکلاء ایسوسی ایشن سے اپیل کرتا ہوں کہ مل بیٹھ کر اس کا تدارک کریں۔ چند لوگ قانون ہاتھ میں لیتے ہیں تو اس سے تمام وکلاء پر حرف آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمعہ کو کمیٹی اس سلسلے میں مذاکرات کرے گی اور امید ہے کہ اس کا بہتر حل نکلے گا لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ بار کونسلز اس معاملے کا نوٹس لیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر ادارے کو اپنا احتساب خود کرنا چاہئے اور دوسروں پر قانون لاگو کرنے سے قبل ہر ادارہ اپنے اوپر بھی قانون لاگو کرے۔

اسی طرح احتساب ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء کی جدوجہد نے انہیں ممتاز بنایا اور قوم نے ان کو عزت دی لیکن ججوں، میڈیا پرسنز اور پولیس اہلکاروں کی مار پیٹ کرنے سے خود وکلاء کی تضحیک ہوتی ہے۔ شرجیل میمن کے حوالے سے ایک سوال پر وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ اگر صاف اور پوتر تھے تو دو سال کہاں غائب رہے اور ضمانت کرانے کے باوجود کیوں نہیں آئے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے اگر میں ہر کرپٹ کے پیچھے ہوں لیکن توجہ پکڑے جانے والوں پر ہونی چاہئے، پکڑنے والوں پر نہیں۔ وزراء کے جھرمٹ میں آنے والے کو خود پر لگے الزامات کی وضاحت کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس والا اگر کسی کے ساتھ زیادتی کرے تو اس کیخلاف فوری کارروائی کی جاتی ہے، زیادتی کرنے والے وکیل کیخلاف ایف آئی آر درج ہو گئی ہے اس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

پولیس کے ساتھ تضحیک آمیز سلوک نہیں ہونے دینگے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی طرف سے وفاق کو بوریا بستر گول کرنے کی دھمکی کے حوالے سے سوال پر وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ بہت تشویشناک بات ہے اگر کسی اور ملک میں کسی نے ایسا کہا ہوتا تو دانشور اور میڈیا اس کا پوری طرح پوسٹمارٹم کرتے ۔ انہوں نے کہا کہ کوئی صوبہ کسی کی جاگیر نہیں کہ وہ فیصلہ کرے کہ کس نے وہاں رہنا ہے اور کس نے نہیں۔

ایسے غیر ذمہ دارانہ بیان کا وزیر ا علیٰ تو کجا کوئی چھوٹا سا عہدیدار بھی نہیں سوچ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے دور میں عدالت جب چیئرمین نیب بدلنے کا حکم دیتی تھی تو یہ پھر اپنی مرضی کا کوئی کارکن چیئرمین لگا دیتے تھے لیکن کسی نے نیب کو اٹھا کر باہر پھینکنے کی بات نہیں کی۔ نیب کا زیادہ تر سیٹ اپ سابق یا مشرف دور کا ہی ہے۔ موجودہ چیئرمین نیب بھی ان کی مشاورت سے لگائے گئے ۔ انہو ںنے کہا کہ وفاقی اور صوبائی اداروں کی حدود آئین نے طے کی ہیں، احتساب کے اداروں کو یہ کہنا کہ اٹھا دینگے نہ کوئی اٹھا سکتا ہے، نہ ایسا اختیار کسی کے پاس ہے۔