فوجی عدالتوں کی بحالی:حکومت اور تحریک انصاف متحرک

حکومت قومی اسمبلی میں آ ج اورکل سینیٹ میں 23 ویں ترمیم اور پاکستان آرمی ایکٹ کا ترمیمی بل پیش کر گی وزیر اعظم نے بلز کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کو یقینی بنانے کے لیے مسلم لیگ ن کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس آ ج طلب

پیر 20 مارچ 2017 10:38

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔20مارچ۔2017ء) وفاقی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن(پی ایم ایل این) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) فوجی عدالتوں کی بحالی سے متعلق 23 ویں آئینی ترمیم کے بل کی منظوری کے لیے متحرک ہیں، جسے حکومت روا ں ہفتے منظوری کے لیے پارلیمنٹ کے دونو ں ایوانوں میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ رپورٹ کے مطابقفوجی عدالتوں کی بحالی اور مدت میں توسیع کے لیے جاری مذاکرات کے دوران گزشتہ ہفتے تقریبا تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماوٴں نے انکشاف کیا کہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف قومی اسمبلی اور سینیٹ میں 23 ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کرنے کے موقع پر زیادہ سے زیادہ اپنے اراکین کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

جب کہ دیگر سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سالہ توسیع پر متفق ہونے کے باوجود اس حوالے سے پرجوش دکھائی نہیں دیں۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے حکومت کے مجوزہ بل کی مخالفت کی تھی، مگر جامع اور تفصیلی ملاقاتوں کے بعد اتفاق رائے پیدا کرنے کی غرض سے پی پی پی نے اپنی 2 اہم شرائط واپس لے لیں تھیں،جس کے بعد حکومت اور حزب اختلاف نے 16 مارچ کو فوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سالہ توسیع پر اتفاق کرلیا تھا۔

اب امید کی جارہی ہے کہ حکومت کی جانب سے 20 مارچ کو قومی اسمبلی اور 21 مارچ کو سینیٹ میں 2 بل آئین میں 23 ویں ترمیم اور پاکستان ا?رمی ایکٹ کا ترمیمی بل پیش کیا جائے گا۔یاد رہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے پہلے ہی 20 مارچ کو قومی اسمبلی میں اپنی جماعت کے تمام ارکان کی زیادہ سے زیادہ موجودگی اور بلز کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کو یقینی بنانے کے لیے مسلم لیگ ن کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس طلب کر رکھا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ احتجاج کے طور پر چیئرمین سینیٹ رضا ربانی بل کو منظوری کے لیے ایوان بالا میں پیش کیے جانے کے وقت ایوان کی صدارت نہیں کریں گے۔چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے 17 مارچ کو اجلاس کی کارروائی چلانے کے دوران فوجی عدالتوں کی بحالی اور مدت میں 2 سالہ توسیع پر سیاسی جماعتوں کے اتفاق کو بدقسمتی قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ یہ معاملہ 2019 سے بھی آگے جا سکتا ہے۔

چیئرمین کا خیال تھا کہ پارلیمنٹ سے 2015 میں فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق 2 بلز کی منظوری کے بعد ا?ج 2 سال بعد ایک بار پھر ملک واپس اسی جگہ آکھڑا ہے جہاں پہلے تھا۔خیال رہے کہ رضا ربانی فوجی عدالتوں کے سخت مخالف رہے ہیں، 2015 میں فوجی عدالتوں کے قیام کے وقت آبدیدہ ہوتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دینے پر شرمندہ ہیں، وہ گزشتہ 12 سال سے سینیٹ میں ہیں، مگر انہوں نے اپنے ضمیر کے خلاف پہلی بار ووٹ دیا۔

قومی اسمبلی میں کل 342 اراکین ہیں، مگر بل کی منظوری کے لیے حکومت کو 228 ووٹوں کی ضرورت ہے، جب کہ سینیٹ کے 104 اراکین میں سے حکومت کو 70 سینیٹرز کی حمایت درکار ہوگی۔ہوسکتا ہے کہ حکومت کو قومی اسمبلی سے بل کی منظوری میں کوئی پریشانی دیکھنی نہ پڑے، مگر سینیٹ میں اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔قومی اسمبلی میں وفاقی حکمران جماعت کے 188 اراکین ہیں، جب کہ پیپلز پارٹی کے 47، تحریک انصاف کے 33 اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)پاکستان کے 24 اراکین موجود ہیں۔سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے 27، وفاقی حکمران جماعت کے 26، تحریک انصاف کے 7 اور ایم کیو ایم کے 8 قانون ساز موجود ہیں۔ حکومت کو بل کی منظوری کے لیے دونوں ایوانوں میں حزب اختلاف کی ضرورت پڑے گی۔