پائیدار امن، استحکام اور جاری ترقی کو یقینی بنانے کے مقصد کا حصول اس وقت تک مشکل ہو گا جب تک علاقائی طاقتیں بین الاقوامی برادری کی معاونت سے مشترکہ چیلنجوں اور باہمی مسائل پر قابو پانے کیلئے مل جل کر کام نہیں کرتیں ، باہمی عدم اعتماد اور الزام تراشی سے غیر ریاستی کرداروں اور مذموم عزائم کیلئے امن کو سبوتاژ کرنے والوں کو استحکام ملے گا، بین الاقوامی برادری دیرینہ علاقائی مسائل سے لاتعلق رہنے کی پالیسی چھوڑے اور اسلام فوبیا سے باہر آئے، عالمی برادری دہشت گردی اور آزادی کی جدوجہد کے درمیان فرق واضح کرے، پاکستان نے اندرونی اور بیرونی امن کے حصول کیلئے کوششوں کی بھاری قیمت ادا کی، بین الاقوامی برادری ہمارے ان ایشوز اور خطرات کا احساس نہیں کر رہی جو ہمیں اندرونی و بیرونی سرحدوں پر درپیش ہیں

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا بین الاقوامی سیمینار ’’استحکام اور امن کاوشوں کے حوالہ سے تجربات کا تبادلہ‘‘ میں اظہارخیال

بدھ 15 مارچ 2017 23:23

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعرات مارچ ء) وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ پائیدار امن، استحکام اور جاری ترقی کو یقینی بنانے کے مقصد کا حصول اس وقت تک مشکل ہو گا جب تک علاقائی طاقتیں بین الاقوامی برادری کی معاونت سے مشترکہ چیلنجوں اور باہمی مسائل پر قابو پانے کیلئے مل جل کر کام نہیں کرتیں کیونکہ باہمی عدم اعتماد اور الزام تراشی سے غیر ریاستی کرداروں اور مذموم عزائم کیلئے امن کو سبوتاژ کرنے والوں کو استحکام ملے گا، بین الاقوامی برادری دیرینہ علاقائی مسائل سے لاتعلق رہنے اور صرف اسی صورت مداخلت کرنے جب اس میں اس کا مفاد ہو یا قلیل المدت مقاصد ہوں، کی پالیسی چھوڑے۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری اسلام فوبیا سے باہر آئے، میرے مذہب کو ہدف بنانا اور اسے دہشت گردی سے جوڑنا انتہائی نامناسب اور افسوسناک ہے، دنیا میں ایک ارب 20 کروڑ مسلمان دہشت گردی کی لعنت سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری دہشت گردی اور آزادی کی جدوجہد کے درمیان فرق واضح کرے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان نے اندرونی اور بیرونی امن کے حصول کیلئے کوششوں کی بھاری قیمت ادا کی، امن و استحکام کے فروغ کیلئے ہماری قربانیاں ہماری کمٹمنٹ کا اظہار ہیں جو کسی اور ملک یا قوم نے نہیں دیں ماسوائے چند دوست ممالک کے۔

بین الاقوامی برادری جو ہمارے دشمنوں سے متاثر ہے ہمارے ایشوز اور خطرات کا احساس نہیں کر رہی جو ہمیں اندرونی و بیرونی سرحدوں پر درپیش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مخالف نظریات کی جنگ کے بعد کی صورتحال کا تنہا سامنا کیا اور حال ہی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی، بھاری معاشی اور انسانی نقصان کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پیچیدگیوں سے نمٹنے کے عمل میں عوام، حکومت اور مسلح افواج کی شرکت سے پاکستان پرعزم ملک کی حیثیت سے ابھرا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدم استحکام کے عناصر سے لڑنے کیلئے ہم ایک غیر معمولی جذبہ کی حامل قوم ہیں کیونکہ یہ عناصر نہ صرف ملک بلکہ خطہ کے امن کیلئے خطرہ ہیں۔ بدھ کو یہاں پاکستان اور برطانیہ کے 2 روزہ بین الاقوامی سیمینار کے اختتامی سیشن جس کا موضوع ’’استحکام اور امن کاوشوں کے حوالہ سے تجربات کا تبادلہ‘‘ تھا، کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ عالمی دنیا میں سیکورٹی کثیر الجہتی ایشو ہے، داخلی اور خارجی عوامل نے مجموعی سیکورٹی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنایا۔

انہوں نے کہا کہ پڑوسی ممالک میں بے چینی پیدا کرنے یا بیگناہ لوگوں کو جو اپنے جائز حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں، کا خون خرابہ کرکے کوئی ملک امن حاصل نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ دوسروں کے ہاتھوں میں کھیلنے کا رجحان بھی علاقائی امن و استحکام کو فروغ دینے کی کوششوں کیلئے نقصان دہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ بعض ممالک ہر چیز حتیٰ کہ اپنی کمزوریوں کا بھی پاکستان پر الزام لگاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج کی علاقائی دہشت گردی کے پیچیدہ محرکات اور اس کے پیچیدہ نیٹ ورک سسٹم کے خاتمہ کیلئے جامع حل کی ضرورت ہے اور اس لعنت کے خاتمہ کیلئے قومی اور علاقائی کوششوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایسی صورتحال بھی رہی جب پانچ، چھ بم دھماکے اور دہشت گردی کی سرگرمیاں عام تھیں، حکومت نے دہشت گردوںکے خلاف ایک مکمل فوجی آپریشن شروع کرنے سے قبل ڈائیلاگ کا آپشن دیا۔

انہوں نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کے بعد ردالفساد شروع کیا گیا تاکہ دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور ان کے ہمدردوں کا خاتمہ کیا جائے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں، مسلح افواج، پولیس، سول آرمڈ فورسز اور قوم کی جرأت مند جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجہ میں پاکستان میں دہشت گردی میں تیزی سے کمی ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ فوجی طاقت قلیل المدت اقدام ہوتا ہے جس کیلئے زبردست انتظامی سٹرکچر کی ضرورت ہوتی ہے جو نہ صرف لوگوں کی سماجی و اقتصادی ضروریات کو پورا کرتا ہے بلکہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ انتہاء پسندی کا فوری طور خاتمہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس کیلئے بین الاقوامی سطح پر مہارت اور علم کے باہمی تبادلے کے ساتھ زیادہ تعاون کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے چوائسز واضح ہیں یا تو ہم باہمی عدم اعتماد اور مخالفت کی صورتحال میں گھرے رہیں یا پھر مربوط مذاکرات کے ذریعے اپنے تنازعات اور اختلافات حل کریں اور اپنے تجربات سے سیکھیں۔ انہوں نے سیمینار کے شرکاء کو مبارکباد دی اور توقع ظاہر کی کہ سیمینار کے دوران مختلف تجاویز کے نتیجہ میں ایشوز سے واضح آگاہی میں مثبت طور مدد ملے گی اور امن و استحکام کے نصب العین کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان زیادہ تعاون کو فروغ ملے گا۔