کچھ بلاگرز کے لا پتہ اور بازیا ب ہونے کے حوالے سے معاملہ کی تحقیقات جاری ہیں،آ ئین اور قانون کی بالادستی کے سب حامی ہیں، اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے بلاگرسلمان حیدر لاپتہ ، 28 جنوری کوگھر واپس آ گئے تھے، واپس آنے کے بعد رابطہ ہوا تھا ، سلمان اور خاندان نے بیان ریکارڈ کرانے سے انکار کر دیا ،پولیس ا بھی تحقیقات کو مکمل کرنے کے حوالے سے کوششیں کررہی ہے ، معاملہ کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں ،ثمر عباس بارے ا بھی تک بدقسمتی سے کوئی اطلاع نہیں مل سکی ہے، باقی بلاگرز کی گمشدگی اور بازیابی کے حوالے سے صوبوں سے تفصیلات لینے کے بعد ایوان کو آ گاہ کیا جائے گا

وزیر مملکت داخلہ انجینئر بلیغ الرحمن کا بلاگرز کے لاپتہ اور بازیاب ہونے بارے تحر یک پر بحث سمیٹتے ہوئے خطاب

پیر 13 مارچ 2017 20:47

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ منگل مارچ ء)وزیر مملکت برائے داخلہ انجینئر بلیغ الرحمن نے کہاکہ کچھ بلاگرز کے لا پتہ ہونے اور انکے بازیا ب ہونے کے حوالے سے معاملہ کی تحقیقات جاری ہیں،آ ئین اور قانون کی بالادستی کے سب حامی ہیں، اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے بلاگرسلمان حیدر لاپتہ ہوئے تھے 28 جنوری کو واپس آ گئے تھے، واپس آنے کے بعد رابطہ ہوا تھا لیکن انہوں نے اور ان کے خاندان نے بیان ریکارڈ کرانے سے انکار کر دیا ،پولیس ا بھی تحقیقات کو مکمل کرنے کے حوالے سے کوششیں کررہی ہے ، معاملہ کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں اور کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچیں۔

ثمر عباس کے بارے میں ا بھی تک بدقسمتی سے کوئی اطلاع نہیں مل سکی ہے، باقی گمشدہ بلاگرز کی گمشدگی اور بازیابی کے حوالے سے صوبوں سے تفصیلات لینے کے بعد ایوان کو آ گاہ کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

پیر کو ان خیالات کا اظہار انہوں نے سینیٹر فرحت اللہ بابر اور سینیٹر عثمان کا کڑ کی جانب سے بلاگرز کے لاپتہ ہونے اور پھر بازیاب ہونے کے حوالے سے تحر یک پر بحث سمیٹتے ہوئے کہی۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل 5 بلاگرز لاپتہ کیاگیا تھا۔ چند ہفتے بعد 4 بلاگرز بزیاب ہوئے ایک بازیاب نہیں ہوا۔ حکومت نے کوئی اقدام نہیں کیا پتہ لگے کہ ان کو اٹھانے والے کون تھے اور ان کو کیوں لاپتہ کیا گیا۔ بلاگرز نے کہاکہ ہم کوئی بات نہیں کرنا چاہتے ‘ اس کا مطلب ہے کہ کوئی دیو مالائی اور غیر مرعی قوت ہے۔ اس کے پیچھے جس سے سب ڈرتے ہیں اور کوئی بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔

یہ نیا رجحان ہے ‘ سوشل میڈیا پر طوفان کھڑا ہوا کہ یہ توہین رسالت اور مذہب میں ملوث ہیں لیکن کسی نے کوئی تفتیش نہیں کی۔ اگر مجرم تھے تو قانون کے تحت ان کو سزا ملنی چاہیے تھی۔ اس سے یہ پیغام دیا گیا کہ تم راہ راست پر نہ آئے تو لاپتہ ہو جائو گے۔ پھر توہین رسالت کا قالزام لگایا جائے گا۔ پولیس کے ادارے ناکام ہو گئے ہیں کہ ان کو لاپتہ کرنے والے کون تھے۔

پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرناچاہیے۔ اداروں کو اگر خوف ہے تو پارلیمنٹ کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور متعلقہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے اور ان کو بلائے۔ اگر یہ کمیٹی کے سامنے پیش نہ ہوئے تو کمیٹی ذیلی کمیٹی بنا کر ان کے گھر جائے تاکہ آئندہ اس طرح کے واقعات میں کمی آ جائے۔ پارلیمنٹ آخری امیدہے۔ اگر یہ خاموش رہا تو نیا رجحان نکلے گا کہ لوگوں کو خوف زدہ کریں۔

ورنہ یہ کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہاکہ اہم مسئلہ ہے۔ بلاگرز کی پر اسرار گمشدگی اور بازیابی اہم مسئلہ ہے یہ دارالحکومت میں ہو رہا ہے باقی علاقوں میں کیا ہو رہا ہو گا۔ وقتاً فوقتاً بلوچستان اور دیگر جگہوں سے لاپتہ کیا جا تا تھا اور لاشیں ملتی تھیں۔ یہ سلسلہ اسلام آباد تک پہنچ گیا ہے جو تشویش ناک معاملہ ہے۔

ملک میں آئین و قانون کی بالادستی ہونی چاہیے۔ تمام ادارے آئین و قانون کو بالادست سمجھیں۔ سوشل میڈیا پر کئی شخصیات کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ قانون کے تحت لوگوں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ اہم ہے۔ قانون کو توڑ کر قانون نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ خوف پھیلا کر دہشت گردی نہیں کی جا سکتی۔

آئین کے تحت کارروائی ہونی چاہیے ورنہ ملک بنانا ری پبلک بن جائے گا۔ جو کہتے ہیں کہ داعؓش کے حامی ہیں ان کو نہیں پکڑا جا رہا ۔ جو دہشت گردی کے خلاف شہید ہونے والوں کو شہید نہیں مانتے ان کو نہیں پکڑا جا رہا۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ اس معاملے پر بھارت ‘ امریکہ او رکئی ممالک نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یہ بلاگرز علیحدہ معاملہ ہے ان میں لاپتہ پرسن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ دہشت گردوں سے زیادہ خطرناک لوگ ہیں کنفیوژن پھیلاتے ہیں۔ یہ بلاہر دہشت گرد نہیں لیکن قلم دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ ایک شخص نے پی پی پی دور حکومت کے امریکہ میں سفیر نے واشنگٹن پوسٹ میں خلاف کالم لکھا ۔ سیکیورٹی اور دفاع پر بحث کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے یہ بلاگرز یا حسین حقانی کا ہے اور ہ لوگ پتہ نہیں کس کی ایما پر بحث کرتے ہیں اور ملک کو بدنام کرتے ہیں۔

ہم یہ اجازت نہیں دیں گے کوئی بلاگرز سوشل میڈیا پر یا کوئی نیو یارک میں بیٹھ کر پاکستان کی دفاع اور آئی ایس آئی کو زیر بحث لائے۔ پاکستان کے نظریات پر حملہ آور ہونے کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔ آج لوگ آصف زرداری سے ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے سے پوچھے گی۔ فرحت اللہ بابر نے کہاکہ نہال ہاشمی نے کیا ویزے کے جاری ہوئے آصف زرداری کو جواب دینا پڑے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ویزے قانون کے تحت جاری کئے گئے کسی ایجنسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ …(رانا+ و خ)

متعلقہ عنوان :