پیپلزپارٹی نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی باضابطہ طور پر مخالفت کردی

ْعدالتوں کی بحالی ضروری ہوئی تو اس کیلئے پی پی اپنا بل لے کر آئیگی،حکومت نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں ناکام ہوگئی ہے،فاٹا کو فوری طور پر صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم نہ کیا گیا تو ایسا قبائلی عوام کے ساتھ فراڈ ہوگا پنجاب میں پختونوں کے خلاف حکومتی کارروائیوں اور بلاجواز گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہیں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آل پارٹیز کانفرنس کے بعد میڈیا سے بات چیت تحریک انصاف اور ایم کیو ایم سمیت بلوچستان کی جماعتوں کا پیپلزپارٹی کی اے پی سی کا بائیکاٹ

ہفتہ 4 مارچ 2017 18:01

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ اتوار مارچ ء)اپوزیشن کی بڑی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی باضابطہ طور پر مخالفت کردی،عدالتوں کی بحالی ضروری ہوئی تو اس کیلئے پیپلزپارٹی اپنا بل لے کر آئے گی،نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں حکومت ناکام ہوگئی ہے،فاٹا کو فوری طور پر صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم نہ کیا گیا تو ایسا قبائلی عوام کے ساتھ فراڈ ہوگا،پنجاب میں پختونوں کے خلاف حکومتی کارروائیوں اور بلاجواز گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار ہفتہ کو پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آل پارٹیز کانفرنس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔گذشتہ روز اے پی سی زرداری ہائوس اسلام آباد میںہوئی۔

(جاری ہے)

پارلیمینٹرین کے چیئرمین آصف علی زرداری،دونوں ایوانوں کے اپوزیشن لیڈرز چوہدری اعتزاز احسن،سید خورشید شاہ،پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری،جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان،امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق،عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما حاجی غلام احمد بلور،فاٹا کے پارلیمانی لیڈر شاہ جی گل آفریدی،عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد،نیشنل پارٹی کے رہنما ووفاقی وزیر میرحاصل خان بزنجو،مسلم لیگ ق کے رہنما کامل علی آغا،بلوچستان نیشنل پارٹی(عوامی) کے رہنمااسرار اللہ زہری،پاکستان عوامی تحریک،وحدة المسلمین پاکستان اور دیگر جماعتوں کے رہنما اے پی سی میں شریک ہوئے۔

پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سمیت بلوچستان کی جماعتوں نے اے پی سی کا بائیکاٹ کیا۔آل پارٹیز کانفرنس فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع،نیشنل ایکشن پلان،فاٹا اصلاحات اور پنجاب میں پختونوں کے خلاف حکومتی کارروائیوں کے چارنکاتی ایجنڈے کے کتحت منعقد ہوئی،اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی فوجی عدالتوں کی مخالف ہے اور اپنے اصولی موقف کو اے پی سی میں دہرایا ہے،فوجی عدالتیں ضروری ہوئیں تو پیپلزپارٹی اپنا بل لے کر آئے گی اور اس بارے میں دیگر جماعتوں کو اس بل کے بارے میں اعتماد میں لیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہی ہے،آل پارٹیز کانفرنس نے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کا مطالبہ کیا ہے،پنجاب میں پختونوں کے خلاف کارروائیوں کی مذمت کرتے ہیں،حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے سلسلے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے اور حکومت فوجی عدالتوں کی متبادل اصلاحات کے نفاذ میں بھی ناکام رہی ہے اگر ضروری ہوا تو پاکستان پیپلزپارٹی فوجی عدالتوں کی بحالی کا بل لے کر آئے گی تاکہ جن تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے ان کو دور کیا جاسکے،سابق صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کی آئینی ترمیم پر پیپلزپارٹی ڈیڈلاک پیدا نہیں ہونے دے گی کیونکہ آئینی ترمیم نے دوتہائی اکثریت سے منظور ہونا ہے۔

پیپلزپارٹی کے رہنما سابق وزیرقانون فاروق ایچ نائیک نے بل کا مسودہ تیار کرلیا ہے اور کوئی ڈیڈ لاک کا معاملہ ہوا تو پیپلزپارٹی حکومتی بل میں ترامیم پیش کردے گی تاکہ آل پارٹیز کانفرنس میں مختلف جماعتوں کے سربراہان نے جن تحفظات کااظہار کیا ہے ان کو دور کیا جاسکے،اصولی طور پر ہم فوجی عدالتوں کے مخالف ہیں،قوم جاننا چاہتی ہے کہ فوجی عدالتوں کے ذریعے جن 161لوگوں کو پھانسیاں دینے کے فیصلے کیے گئے ان میں کتنے ’’بلیک جیٹ‘‘ دہشتگرد تھے،بحالی کے مسودے کے بارے میں اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر نے کہا کہ نئے مسودے میں دہشتگرد تنظیموں کا ذکر کیا گیا ہے مگر اس کی تشریح نہیں کی گئی ہے کہ یہ کس نوعیت کی دہشتگرد تنظیمیں ہیں۔

دونوں ایوانوں میں اپوزیشن لیڈرز پیپلزپارٹی کے بلز پر دیگر جماعتوں کو اعتماد میں لیں گے اور اس حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس میں سینیٹ اپوزیشن لیڈر چوہدری اعتزاز احسن کو بل کو مزید بہتر بنانے کیلئے فاروق ایچ نائیک کی معاونت کی ہدایت کی گئی ہے،حکومت نے اپنے بل پر اصرار جاری رکھا تو ہم بھی اپنا بل پیش کردیں گے۔گذشتہ روز اے پی سی میں 13جماعتیں شریک ہوئیں،بلوچستان سے پختونخوا ملی عوامی پارٹی،جمہوری وطن پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے رہنما بھی شریک نہیں ہوئے۔

متعلقہ عنوان :