فاٹا سے ایف سی آر کا کالا قانون ختم کر نے کیلئے پانچ سالہ پروگرام ترتیب دیا ،ْ فاٹا میں انتخابات اور تمام اصلاحات ہونگی ،ْمشیر خارجہ

فاٹا کی بحالی کیلئے 321 ارب روپے کا اضافی بجٹ دیا جائیگا ،ْمردم شماری کے بعد عام انتخابات میں فاٹا کے عوام صوبہ خیبر پختون خوا کی اسمبلی کیلئے اپنے نمائندوں کا انتخاب کر سکیں گے ،ْمئی 2017 تک آئی ڈی پیز کی واپسی بھی مکمل کر لی جائیگی ،ْپارلیمنٹ کیایکٹ کے ذریعے سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھایا جائیگا ،ْسرتاج عزیز کی اقبال ظفر جھگڑا ،ْ عبد القادر بلوچ ،ْ وزیرمملکت مریم اور نگزیب کے ہمراہ میڈیا کو بریفنگ

جمعرات 2 مارچ 2017 21:28

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعہ مارچ ء)فاٹا اصلاحات کمیٹی کے سربراہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہاہے کہ فاٹا سے ایف سی آر کا کالا قانون ختم کر نے کیلئے پانچ سالہ پروگرام ترتیب دیا ہے جس کے تحت فاٹا میں انتخابات اور تمام اصلاحات ہونگی ،ْفاٹا کی بحالی کے لئے 321 ارب روپے کا اضافی بجٹ دیا جائیگا ،ْمردم شماری کے بعد عام انتخابات میں فاٹا کے عوام صوبہ خیبر پختون خوا کی اسمبلی کے لیے اپنے نمائندوں کا انتخاب کر سکیں گے ،ْمئی 2017 تک آئی ڈی پیز کی واپسی بھی مکمل کر لی جائیگی ،ْپارلیمنٹ کیایکٹ کے ذریعے سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھایا جائیگا۔

جمعرات کو فاٹا اصلاحاتی کمیٹی کے سربراہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے گور نر کے پی کے اقبال ظفر جھگڑا ،ْوفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ ،ْ وزیر مملکت مریم اورنگزیب اور قبائلی ارکان اسمبلی و سینیٹ کے ہمراہ میڈیا کو بریفننگ دیتے ہوئے کہا کہفاٹا کو قومی دھار ے میں شامل کرنے کی غرض سے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے نومبر 2015ء میں سرتاج عزیز کی سربراہی میں چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی ،ْکمیٹی کے ارکان میں گورنر خیبر پختونخوا ظفر اقبال جھگڑا، وزیر سرحدی امور عبدالقادر بلوچ، وزیر قانون و انصاف زاہد حامد اور سیکرٹری سیفران محمد شہزاد ارباب شامل تھے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 247(vi) کے تحت فاٹا اصلاحاتی کمیٹی نے تمام سات قبائلی ایجنسیوں کے دورے کئے اور پشاور میں چھ فرنٹیئر ریجنز کے نمائندوں کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے 3500 قبائلی ملکان اور مشران کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں،وکلاء،تاجروں،نوجواں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے مشاورت کی۔کمیٹی نے فاٹا پارلیمنٹرینز کے ساتھ کے ساتھ بھی مشاورتی ملاقاتیں کیں۔

اس سلسلے میں فاٹا پارلیمنٹرینزکی کمیٹی سے پہلی ملاقات 10دسمبر 2015ء میں ہوئی جہاں پارلیمنٹرینزنے سات نکات پر مشتمل ایک تحریری میمورنڈم کمیٹی کے حوالے کیا۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے اپنی رپورٹ گزشتہ سال 23اگست کو وزیر اعظم اور 24اگست کو نیشنل سیکورٹی کمیٹی کو پیش کی۔وزیر اعظم نے کمیٹی کی سفارشات کی اصولی توثیق کرتے ہوئے ہدایت کی کہ رپورٹ کو عام بحث کیلئے پارلیمنٹ میں کیا جائے ،ْانہوں نے کہا گزشتہ سال 9 نومبر کو فاٹا اصلاحاتی کمیٹی کی رپورٹ قومی اسمبلی اور بعد 27ستمبر کو سینیٹ میں پیش کی گئی۔

اس دوران میڈیا کے ذریعے مشاورت کا عمل بھی جاری رہا۔کمیٹی کی رپورٹ وزارت سیفران کی ویب سائٹ پر جاری کر دی گئی جس پر تیس ہزار سے زائد افراد نے اپنی رائے دی، زیادہ تر لوگوں نے فاٹا کو خیبر پختونخوا میںضم اور ایف سی آرختم کرنے کی حمایت کی۔ وسیع پیمانے پر مثبت فیڈ بیک کی بنیاد پر وزارت سیفران نے گزشتہ سال 13دسمبر کو سفارشات کی منظوری کیلئے سمری کابینہ میں جمع کرا دی۔

کابینہ نے گزشتہ سال 15دسمبر کو سمری کی اہم سفارشات کی توثیق کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا کہ تمام معاملات پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے ،ْسرتاج عزیز نے کہا کہ یہ تمام عمل رواں ماہ مکمل ہو گیا ،ْ جمعرات 2 مارچ کو کابینہ نظر ثانی شدہ سمری کا جائزہ لیا اور فاٹا اصلاحاتی کمیٹی کی سفارشات کی اصولی منظوری دیدی۔کابینہ کے فیصلے کے مطابق فاٹا کو پانچ سال کے دوران قومی دھارے میں شامل کیا جائیگا ،ْآئینی ترامیم کے ذریعے فاٹا کے عوام 2018ء کے عام انتخابات میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپنے نمائندے منتخب کر سکیں گے۔

ایف سی آر کو ختم کیا جائے گا اور اس کی جگہ رواج ایکٹ لایا جائے گا۔پارلیمنٹ کیایکٹ کے ذریعے سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھایا جائیگا۔انہوںنے بتای اکہ این ایف سی سے درخواست کی جائے گی کہ وہ مجموعی وفاقی قابل تقسیم محاصل سے فاٹا کی ترقی کیلئے سالانہ بنیادوں پر 3 فیصد فنڈز مختص کرے ،ْ یہ موجودہ سالانہ پی ایس ڈی پی فنڈز21ارب روپے سے الگ ہونگے۔

فاٹا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی گریڈ بائیس کے چیف آپریٹنگ آفیسر کی نگرانی میں از سر نو تشکیل کی جائے گی، وہ دس سالہ سماجی اقتصادی ترقیاتی منصوبے پر عملدرآمد کے ذمہ دار ہونگے۔ ترقیاتی اور انتظامی امور پر عملدرآمد اور نگرانی میں فاٹا کے تمام سینیٹرز اور ارکان قومی اسمبلی گورنر کے پی کے کی معاونت کریںگے۔ فاٹا ڈویلپمنٹ کمیٹی کے اختیارات کی منظوری میں اضافہ کیا جائے گا، جماعتی بنیادوں پر لوکل باڈیز کے انتخابات اگلے سال عام انتخابات کے فوری بعد منعقد کئے جائیںگے، بڑے پیمانے پر کرپشن کے خاتمے کیلئے فاٹا سے برآمدات اور فاٹا کو درآمدات کیلئے پرمٹ اور راہداری سسٹم پا بندی ہو گی، سیکورٹی کی غرض سے لیویز فورس میں مزید بھری کی منظوری دی جائیگیِ، فاٹا میں تمام عہدوں کو اپ گریڈ اور خیبر پختونخوا کے برابر لایا جائے گا، فاٹا کو سی پیک کے ساتھ منسلک کرنے کو یقینی بنایا جائے گا، سٹیٹ بنک آف پاکستان کو فاٹا میں زیادہ سے زیادہ برانچ کھولنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

وفاقی وزیر سیفران جنرل عبدالقادر بلوچ نے کہاکہ فاٹا کو خیبر پختون خوا میں شامل کرکے ہر سطح کے انتخابات میں فاٹا کو شامل کیا جائیگا۔ گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا نے کہاکہ قبائلی علاقہ جات کی اصلاحات کا آغاز آئی ڈی پیز کی بحالی کے عمل سے ہی شروع ہوگیا تھا تاہم مئی 2017 تک آئی ڈی پیز کی واپسی بھی مکمل کر لی جائیگی۔ایک سوال پر سرتاج عزیز نے کہاکہ اس نظام کی نگرانی بھی جج کرے گا اور اگر کوئی اس نظام کے تحت ہونے والے فیصلے سے مطمئن نہ ہو تو وہ اس کو اعلی عدالتوں یعنی پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کرسکتے ہیں۔

اٴْنھوں نے کہا کہ حکومت ان علاقوں میں 20 ہزار کے قریب لیویز کے اہلکار بھرتی کرے گی جسے پولیس کے اختیارات حاصل ہوں گے تاہم پانچ سال کے بعد اس وقت کی صوبائی حکومت مجاذ ہوگی کہ وہ لیویز کو پولیس کے محکمے میں ضم کرتی ہے یا پھر اس کو لیویز ہی برقرار رکھتی ہے۔