پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت مکمل ،ْ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے فیصلہ محفوظ کرلیا

یہ وہ مقدمہ نہیں جس میں مختصر حکم دیا جائے ،ْ کیس کے تمام زاویوں کو دیکھا جائیگا ،ْ کچھ وقت لیں گے ،ْ معاملے کو گہرائی سے دیکھیں گے ،ْ عدالت عظمیٰ فیصلے کا کوئی شارٹ آرڈر جاری نہیں ہوگا بلکہ تفصیلی فیصلہ ہی جاری کیا جائیگا ،ْ جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس

جمعرات 23 فروری 2017 14:14

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعہ فروری ء)سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت مکمل ہوگئی ہے ،ْ جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں قائم 5 رکنی لارجر بنچ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ وہ مقدمہ نہیں جس میں مختصر حکم دیا جائے ،ْ کیس کے تمام زاویوں کو دیکھا جائیگا ،ْ کچھ وقت لیں گے ،ْ معاملے کو گہرائی سے دیکھیں گے ،ْ فیصلے کا کوئی شارٹ آرڈر جاری نہیں ہوگا بلکہ تفصیلی فیصلہ ہی جاری کیا جائیگا ۔

جمعرات کو ہونے والی میں سماعت میں پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے سینئر ججز پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ کے سامنے اپنے جوابی دلائل کا سلسلہ جاری رکھا۔تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے ایک بار پھر گلف سٹیل ملز کے واجبات کا نکتہ اٹھایا جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جو بات پہلے کر چکے ہیں اسے دہرا کر وقت ضائع نہ کریں۔

(جاری ہے)

تحریک انصاف کے وکیل نے کہاکہ شریف خاندان کی جانب سے دوران سماعت سہ فریقی معاہدہ پیش کیا گیا تھا تاہم گلف سٹیل کے واجبات سے متعلق کوئی وضاحت نہیں دی گئی ،ْگلف سٹیل ملز کے واجبات 63 ملین درہم سے زیادہ تھے۔

جس پر جسٹس اعجاز افضل کا نعیم بخاری کو کہاکہ پی ٹی آئی کی درخواست میں بھی گلف سٹیل کے واجبات سے متعلق کوئی بات شامل نہیں اور ابتدائی دلائل میں انہوں نے بھی ایسی کوئی بات نہیں کی۔نعیم بخاری نے کہاکہ مریم نواز کی دستخط والی دستاویز انہوں نے تیار نہیں کی جس پر شیخ عظمت سعید نے جواب دیا کہ آپ مریم نواز کے دستخط والی دستاویز کو درست کہتے ہیں جبکہ شریف فیملی اس دستاویز کو جعلی قرار دیتی ہے۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عدالت میں دستخط پر اعتراض ہو تو ماہرین کی رائے لی جاتی ہے جبکہ ماہرین عدالت میں بیان دیں تو ان کی رائے کو درست تصور کیا جاتا ہے۔انہوںنے کہاکہ آپ ہمیں خصوصی یا احتساب عدالت سمجھ کر فیصلہ لینا چاہتے ہیں ،ْمتنازع دستاویز کو چھان بین کے بغیر کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہی دوران سماعت جسٹس شیخ عظمت نے اپنی طبیعت کی ناسازی کا ذکر بھی کیا اور ہدایت کی آج انہیں زیادہ تنگ نہ کیا جائے۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ دونوں فریقین کی دستاویزات کا ایک ہی پیمانے پر جائزہ لیں گے اور دونوں فریقین کی دستاویزات ہی تصدیق شدہ ذرائع سے نہیں آئیں۔وکیل پی ٹی آئی نے کہاکہ وزیر اعظم نے ایمانداری کا مظاہرہ نہیں کیا اور موزیک فرانزیکا کو کوئی قانونی نوٹس نہیں بھجوایا۔انہوںنے کہاکہ وہ گیلانی کیس کی طرح اس کیس میں بھی عدالت سے ڈیکلریشن مانگ رہے ہیں۔

اپنے جوابی دلائل میں نعیم بخاری نے شریف خاندان کی جانب سے بطور شواہد پیش کیے گئے قطری خطوط اور قطری سرمایہ کاری پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ سالہا سال تک شریف خاندان کی جانب سے کبھی قطری مراسم کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔نعیم بخاری نے کہاکہ قطری خاندان کو ایل این جی کو ٹھیکہ دینے کی خبر بھی انہوں نے اخبار میں پڑھی۔جس پر عدالت نے کہا کہ قطری ٹھیکے والی بات مفادات کے ٹکراؤ کی جانب جاتی ہے جبکہ ہمارے سامنے ایل این جی کے ٹھیکے کا معاملہ نہیں۔

نعیم بخاری کی جانب سے اس سوال پر کہ کیا دنیا میں کسی نے پاناما لیکس کو چیلنج کیا جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ لندن عدالت میں آبزرویشن بیان حلفی کے بنیاد پر دی گئی۔وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ قطری شہزادے نے کہہ دیا کہ قرض کی رقم اس نے ادا کی تاہم اتنی بڑی رقم بینک کے علاوہ کیسے منتقل ہوئی نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ 1980 سے 2004 تک قطری شیخ بینک کا کردار ادا کرتے رہے، اور سرمایہ کاری پر منافع اور سود بھی بنتا گیا۔

جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ دستاویزات پر نہ دستخط ہے اور نہ کوئی تاریخ جبکہ ادائیگی کس سال میں کی گئی وہ بھی درج نہیں، اگر عدالت غیر تصدیق شدہ دستاویزات مسترد کرنا شروع کرتی ہے تو 99.99 فیصد کاغذات فارغ ہو جائیں گے اور ہم واپس پرانی سطح پر آجائیں گے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ عدالت ٹرائل کورٹ نہیں جو یہ کام کرے، جس پر نعیم بخاری نے یوسف رضا کیس کا حوالہ دہراتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں عدالت ایسا کرچکی ہے۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ یوسف رضا گیلانی کیس میں عدالت نے توہین عدالت کی درخواست پر فیصلہ سنایا تھا۔نعیم بخاری نے کہا کہ یہ کیس بھی وزیراعظم کے ان اثاثوں کا مقدمہ ہے جو ظاہر نہیں کیے گئے۔جسٹس اعجاز افضل نے پی ٹی آئی ثبوت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کیا ایسے دستاویزات کو ثبوت مانا جا سکتا ہی کیا ہم قانون سے بالاتر ہو کر کام کریں انہوںنے کہاکہ عدالت اپنے فیصلوں میں بہت سے قوانین وضع کر چکی ہے اور عدالت نے ہمیشہ غیر متنازع حقائق پر فیصلے سنائے ہیں۔

جسٹس گلزار محمد نے کہا کہ عدالت بنیادی حقوق کا معاملہ سن رہی ہے، اور یہ مقدمہ ٹرائل کی نوعیت کا نہیں۔جسٹس اعجاز افضل نے وکیل پی ٹی آئی سے سوال کیا کہ کیا وہ مفاد عامہ کے مقدمہ میں قانونی تقاضوں کو تبدیل کر دیں لندن فلیٹس کی سرمایہ کاری پر بات کرتے ہوئے جسٹس اصف کھوسہ نے کہا کہ قطری خط کے مطابق 8 ملین ڈالرز الثانی خاندان نے ادا کیے۔

نعیم بخاری کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ 1980 سے 1999 تک الثانی خاندان نے سرمایی کاری کے نفع کا ایک پیسہ نہیں دیا اور 1999 کے بعد سے پیسوں کی ادائیگی شروع ہوئی اور یہ لین دین بھی بینک کے ذریعے نہیں ہوئی۔وزیر اعظم کی تقاریر پر بات کرتے ہوئے وکیل پی ٹی آئی نے کہاکہ وزیراعظم 5 اپریل کو قوم سے کیے گئے خطاب میں صادق اور امین نہیں تھے نہ ہی قومی اسمبلی سے کیے گئے خطاب میں انہوں نے سچ بولا ،ْوزیر اعظم گلف سٹیل فیکٹری کے حوالے سے غلط بیانی کے مرتکب ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کبھی قطری فیملی سے تعلقات کا اظہار نہیں کیا اور وزیراعظم کی بیٹی لندن فلیٹس کی مالک نکلیں ،ْاگر پاناما پیپر غلط ہے تو وزیراعظم نے انہیں نوٹس کیوں نہیں بھیجا۔ نعیم بخاری کے دلائل کے بعد شیخ رشید نے اپنے جوابی دلائل کا سلسلہ شروع کیا۔شیخ عظمت سعید کی صحتیابی کو اللہ کا احسان سمجھتے ہوئے انہوںنے کہاکہ اتنے تسلسل سے نہ وہ کبھی سکول گئے نہ کالج جتنی باقاعدگی سے جسٹس اکیڈمی (عدالت) آتے ہیں۔

عدالتی کارروائی پر بات کرتے ہوئے عوامی مسلم لیگ کے رہنما شیخ رشید نے کہاکہ عدالت نے دوران کارروائی کل 371 سوالات پوچھے جن میں سے سب سے زیادہ شیخ عظمت صاحب کے تھے مگر ان سوالات کے جواب نہ ملنے پر جج صاحب کا دل زخمی ہوا۔جوابی دلائل کا آغاز کرتے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ نے کہاکہ نواز شریف نے کہا تھا کرپشن کرنے والے اپنے نام پر کمپنیاں اور اثاثے نہیں رکھتے تو پھر دبئی فیکٹری کب اور کیسے لگی اور پیسہ کیسے باہر گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی جانب سے تمام دستاویزات موجود ہونے کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا ،ْعدالت 20 سے زائد افراد کو اثاثے چھپانے پر نااہل قرار دے چکی ہے۔مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے شیخ رشید نے کہاکہ عدالت مختلف فیصلوں میں صادق اور امین کی تعریف بیان کرچکی ہے اور میرا کیس پہلے دن سے صادق اور امین کا ہے۔اس موقع پر شیخ رشید نے جعلی ڈگری اور دوہری شہریت مقدمات کی فہرست بھی عدالت کو پیش کی۔

شیخ رشید نے عدالت کو بتایا کہ اگر وہ افسانہ بناتے تو شاید اس سے بہتر بنالیتے۔جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ کو افسانہ بنانے کا تجربہ ہی شیخ رشید کا کہنا تھا کہ عدالت نے انصاف کیلئے ہمہ جہتی فیصلہ کرنا ہے جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے جواب دیا کہ انصاف اب صرف پسند کا فیصلہ ہو گیا ہے اور اگر فیصلہ مرضی کا نہ ہو تو ججز پر رشوت اور سفارشی ہونے کا الزام لگا دیا جاتا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جج نا اہل ہیں۔

جسٹس آصف کھوسہ کے مطابق اور اگر فیصلہ حق میں آجائے تو کہا جاتا ہے کہ ان سے اچھا منصف کوئی نہیں۔شیخ رشید نے کہا کہ یہ تاریخی وقت ہے اور اب کرپشن کے خلاف سزا نہ ہوئی تو ملک خانہ جنگی کی جانب بڑھے گا۔نواز شریف کے خطاب پر بات کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ نواز شریف کا بیان اگر اسمبلی کی کارروائی ہو تو ہی انہیں استحقاق حاصل ہے مگر ذاتی وضاحت استحقاق کے زمرے میں نہیں آتی۔

جس پر عدالت نے کہا کہ یہ کہنا مشکل ہوگا کہ تقریر کارروائی کا حصہ نہیں تھی تقریر کو اسمبلی کارروائی کا حصہ دکھایا گیا تھا۔شیخ رشید نے کہا کہ منی لانڈرنگ اور کرپشن پر استثنیٰ نہیں ہوتا، ایک صدر نے کہا تھا میرا کوئی کچھ نہیں کر سکتا مگر اقتدار ختم ہونے کے بعد ان کے خلاف بھی مقدمہ ہوا۔شیخ رشید کا کہنا تھا کہ مفاد عامہ کی درخواست میں سپریم کورٹ وہ ریلیف بھی دے سکتی ہے جو نہیں مانگا گیا ،ْکیس عدالت کو سمجھ آ چکا ہے ہم صرف وقت ضائع کر رہے ہیں۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ عدالت نے چودھری نثار کی درخواست میں چیئرمین نیب کو اڑایا جس پر جسٹس آصف آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہم کسی کو اڑاتے نہیں، صرف فیصلہ کرتے ہیں، اڑادیا جیس لفظ سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے جیسے کسی کا کوئی ایجنڈا ہو۔جس پر شیخ رشید نے کہاکہ ہمارے شہر میں ایسے ہی لفظ استعمال ہوتے ہیں کیونکہ میرے شہر میں لوگ قانون کو نہیں فیصلے کو زیادہ سمجھتے ہیں۔

جس پر جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ جس نے آپ کو یہ لکھ کردیا ہے، پتہ نہیں اس نے عدالتی فیصلے پڑھے بھی ہیں یا نہیں۔شیخ رشید نے جواب دیا کہ ڈاؤن ٹاؤن کے منشی تو ایسے ہی لکھ کر دیتے ہیں، انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ رات کو تنہائی میں شریف فیملی کی دستاویزات کو دیکھتے ہیں اور انہیں تمام دستاویزات جعلی لگتی ہیں۔قطری سرمایہ کاری پر بات کرتے ہوئے شیخ رشید نے کہا کہ قطری خاندان کی آمد پہلی بار نہیں ہوئی، ہیلی کاپٹر کیس میں بھی قطری خاندان کا معاملہ سامنے آچکا ہے۔

انہوںنے کہا کہ طارق شفیع نے بھی اپنا پہلا بیان بہتر بنایا ہے اور تمام ادارے اور وزیراعظم ہاؤس روزانہ اپنا کیس بہتر کرتے ہیں۔جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ سب لوگ اپنے کیس کی تیاری کرکے آتے ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ قانون شہادت کے مطابق چوری کا مال جس سے برآمد ہو اسی کو ثابت کرنا ہوتا ہے، شیخ رشید نے کہا کہ شریف خاندان نے تسلیم کیا ہے کہ مال ان کا ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ مال شریف خاندان کا ہونے اور چوری کا ہونے میں فرق ہے، پہلے ثابت کرنا ہوتا ہے کہ مال چوری کا ہے۔

اس موقع پر وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے کہاکہ نعیم بخاری چالیس سال سے میرے دوست ہیں اور میری کسی بات سے ان کی تضحیک ہوئی تو میں معذرت خواہ ہوں۔انہوںنے کہاکہ ہاف ڈیسنِٹ لا فرم کے ریمارکس پر نعیم بخاری کی دل آزاری ہوئی جس ر وہ معذرت خواہ ہیں، جس کے بعد شاہد حامد نے نعیم بخاری سے ہاتھ ملا کر معذرت کر لی۔ جماعت اسلامی نے تحریری صورت میں اپنا جواب الجواب عدالت میں جمع کروا دیا۔

جواب میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ یہ طے ہو چکا ہے کہ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں غلط بیانی کی۔جواب میں عدالت سے مطالبہ کیا گیا کہ قطری شہزادے کو عدالت میں طلب کیا جائے اور اگر وہ پیش نہیں ہوتا تو اس کا خط مسترد کیا جائے۔جماعت اسلامی کے جواب میں کہا گیا کہ اسمبلی میں ذاتی معاملے کی وضاحت کرنے پر وزیر اعظم آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے لہذا اس بنیاد پر نااہل قرار دیا جائے۔

سماعت کے دور ان سپریم کورٹ کی اجازت پر عمران خان نے فاضل جج صاحبان کے روبرو کہا کہ ترقی یافتہ ملکوں کے ادارے مضبوط ہیں تاہم ہمارے ادارے مضبوط نہیں، میری کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں، میں کرپشن ختم کرنے کیلئے یہاں آیا ہوں، لیڈر کو عام شخص سے زیادہ ایماندار اور دیانتدار ہونا چاہئے ،ْ اگر میری دیانتداری ثابت نہ ہوتو مجھے بھی عوامی عہدے پر آنے کا کوئی حق نہیں، پاکستانی قوم دنیا کی ان 10 اقوام میں شامل ہوتی ہے جو سب سے زیادہ خیرات اور فلاحی کاموں میں حصہ ڈالتی ہے تاہم ہم بحیثیت قوم ٹیکس کی ادائیگی میں سب سے پیچھے ہیں۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ کرپشن روکنے کے لئے تمام اداروں کے دروازے کھٹکھٹا کر یہاں آئے ہیں ،ْہم آپ کی عدالت میں ہیں اورآپ اللہ کی عدالت میں ہیں۔سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکلا نے جوابی دلائل مکمل کرلئے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کیس کی سماعت مکمل ہونے پر ریمارکس دیئے کہ یہ وہ مقدمہ نہیں جس میں مختصر حکم دیا جائے، کیس کے تمام زاویوں کو دیکھا جائے گا اور پھر تفصیلی فیصلہ جاری کیا جائے گا۔