چیئرمین سندھ پبلک سروس کمیشن و ممبران کی تقرری سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت ، سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا

ڈپٹی کنٹرولر کمیشن کی ڈیپو ٹیشن ختم کرتے ہوئے واپس اپنے محکمہ تعلیم رپورٹ کرنیکا حکم سندھ حکومت نے ایسے افراد کا تقرر کیوں کیا جو نااہل تھے ، کیا وزیر اعلی اور چیف سیکرٹری کو انگریزی پڑھنا نہیں آتی تھی ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس

بدھ 22 فروری 2017 20:09

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعرات فروری ء)سپریم کورٹ میں سندھ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین اور ممبران کی تقرری سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سندھحکومت نے ایسے افراد کا تقرر کیوں کیا جو نااہل تھے ،کیا وزیر اعلی سندھ صوبے کا خدا ہے جو اس نے جان بوجھ کہ نااہل افراد کا تقرر کیا ، کیا وزیر اعلی اور چیف سیکرٹری کو انگریزی پڑھنا نہیں آتی تھی ،تقرری کا مرحلہ ہوتا ہے،کیا راستوں سے بندوں کو اٹھا کر تقرر کیا جائے گا، جبکہ عدالت عظمیٰ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کمیشن کے ڈپٹی کنٹرولر کی ڈیپو ٹیشن ختم کرتے ہوئے ان کو واپس اپنے محکمہ تعلیم رپورٹ کرنے کا حکم دیدیا ہے ، جبکہ کمیشن کے آئی ٹی افسر جاوید چاچڑ کی تقرری قانون کے مطابق قرار دی ہے ، عدالت کا کہنا تھا کہ امیدواران کے حوالے سے تمام دستاویزات اور ان کے وکلا کا جائزہ لے کر فیصلہ جاری کرینگے۔

(جاری ہے)

بدھ کو ازخود نوٹس کیس کی سماعت جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ،دوران سماعت نیب کی جانب سے قبضے میں لی گئی امتحانی کاپیاں کمیشن کو واپس کیں جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ فوٹو کاپی نیب رکھے اور تحقیقات جاری رکھے عدالت نیب کے کام میں مداخلت نہیں کرے گی، جبکہ پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں حصہ لینے والے امیدوار کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے عدالت کو بتایا کہ امتحان کے دوران تین چیئرمین مقرر کئے گئے،2013میں پہلی بار امتحان کا اشتہار دیا گیا اور 2016 میں اسکا نتیجہ آیا , پبلک سروس کمیشن کے امتحانات پانچ سال کے بعد ہوتے ہوئے ، اس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا کہ امتحان ہر سال ہونے کے بجائے پانچ سال میں کیوں ہوئے ، عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ ان امتحان میں 3365 امیدوار سکریننگ ٹیسٹ کے بعد پاس ہوئے ،پھر پانچ پیپرز لئے گئے جس میں امیدواران نے کامیابی حاصل کی ہے ، اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈوکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ میرٹ لسٹ کا کیا بنا ایڈوکیٹ جنرل صاحب ، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ معلوم کرکے بتاتا ہوں، اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ افسوس ہے کہ آپ کو کیس کا پتہ نہیں، یہاں کوئی مزاک نہیں ہو رہا۔

آپ کے اس رویے پر توہین عدالت کی کاروائی کرسکتے ہیں، جبکہ کنڑولر کمیشن کا کہنا تھا کہ امتحان پاس کرنے کے بعد زبانی امتحان لینے والے سلیم بھنور، فیروز بھٹی اور جاوید بخاری ا ستعفیٰ دے چکے ہیں، اس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ مقصد یہ ہوا کہ جنہوں نے انٹرویو لئے وہ سارے نااہل تھے،میرٹ لسٹ پر نام مکمل نہیں ہیں لگتا ہے بوجھ کے امیدواروں کی زات چھپائی گئی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ سندہ حکومت نے ایسے افراد کا تقرر کیوں کیا جو نااہل تھے ،کیا وزیر اعلی سندہ صوبے کا خدا ہے جو اس نے جان بوجھ کہ نااہل افراد کا تقرر کیا ، کیا وزیر اعلی اور چیف سیکرٹری کو انگریزی پڑھنا نہیں آتی تھی ،تقرری کا مرحلہ ہوتا ہے،کیا راستوں سے بندوں کو اٹھا کر تقرر کیا جائے گا، جبکہ ایڈوکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ امیدواروں کے انٹرویو لینے والے پینل میں ایک جاوید بخاری اہل تھا، ا س پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ تین میں سے جب دو انٹرویو کرنے والے نااہل تھے تو پھر نتائج کا کیا ہوگا، جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ جس کمیشن کے اکثرممبران نااہل تھے تو پھر اس کمیشن کی قانونی حیثیت کیا ہوگی،جن ممبرکی تقرری صحیح ہوئی تھی تو ٹھیک اگر صحیح تقرری نہیں تھی تو وہ اجنبی ہو جاتے ہیں جبکہ کامیاب امیدواروں کے وکلاء کا کہنا تھا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ عدالت کے 184/3 کے دائرہ اختیار پر بحث کرینگے۔

،درخواست گزار کا کوئی حق متاثر نہیں ہوا ، 28 ہزار لوگوں نے فارم جمع کرائے اور ان کے ٹیسٹ ہوئے اور دس لوگوں نے نتیجہ قبول نہیں کیا ، عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت سمیٹتے ہوئے کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا جبکہ کمیشن کے ڈپٹی کنٹرولر جمعو چانڈیو کی ڈیپو ٹیشن ختم کرتے ہوئے ان کو واپس اپنے محکمہ تعلیم رپورٹ کرنے کا حکم دیدیا ہے ، جبکہ کمیشن کے آئی ٹی افسر جاوید چاچڑ کی تقرری قانون کے مطابق قرار دی ہے ، عدالت کا کہنا تھا کہ امیدواران کے حوالے سے تمام دستاویزات اور ان کے وکلا کا جائزہ لے کر فیصلہ جاری کرینگے۔