کوئی بھی فریق سچ سامنے نہیں لا رہا ،سپریم کورٹ
مصدقہ دستاویزات کون فراہم کریگا صورت حال عجیب ہوتی جارہی ہے ،اصل حقائق تک کیسے پہنچیں گے،جسٹس اعجاز افضل تمام دستاویزات صرف حسین نواز ہی فراہم کر سکتے ہیں، جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس 26 سال تک پیسہ بڑھتا گیا ،کیا اس کا دستاویزی ثبوت موجود ہے،جسٹس اعجاز الاحسن کا وکیل سے استفسار جو ریکارڈ تھا عدالت کو فراہم کر دیا،45 سال پرانا ریکارڈ پیش کرنا ممکن نہیں،عدالت تحقیقات کے بغیر کسی نتیجے پر کیسے پہنچ سکتی ہے، وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل ،مزید سماعت آج پھر ہوگی
بدھ 15 فروری 2017 17:16
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعرات فروری ء) پانامہ لیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کوئی بھی فریق سچ سامنے نہیں لا رہا مصدقہ دستاویزات آخر کون فراہم کرے گا صورتحال عجیب ہوتی جا رہی ہے ایسے میں اصل معلومات تک رسائی کیسے ممکن ہو گی درخواست گزار نے دستاویزات دینے سے معذوری ظاہر کر دی ہے، آپ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، ہم اس معاملے کو کیسے سمیٹیں جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ تمام دستاویزات حسین نواز ہی فراہم کر سکتے ہیں جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ 26سال تک پیسہ بڑھتا گیا کیا اس کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں بدھ کو پاناما لیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل ، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے کی ، مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی توکے صاحبزادے حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ کہا کہ سب سے پہلے شیخ عظمت سعید کو صحتیابی کے بعد خوش آمدید کہتا ہوں ، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ اللہ کے شکر گزار ہیں جس نے جسٹس عظمت سعید کو صحت عطا کی اور ساتھ میں ہر اس شخص کے بھی شکر گزار ہیں جس نے انکو جلد صحت یابی کے لیے دعا کی ، سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا باقائدہ آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ایک فیکٹ شیٹ جمع کرائی ہے جس میں الزامات کا مختصر جواب موجود ہے ، یہ فیکٹ شیٹ صرف بنچ کے سمجھنے کے لیے جمع کرائی گئی ہے ، عدالت نے میرے سامنے کل آٹھ سوالات رکھے ہیں ، انہوں نے کہا کہ نہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ ہے اور نہ میرے موکل گواہ ہیں ، جتنا ریکارڈ موجود ہے اس کے مطابق جواب دونگا ، چالیس پینتالیس سال پرانا ریکارڈ موجو د نہیں ہے ، مارشل لاء کی وجہ سے شریف خاندان کی دستاویزات ضائع ہو چکی ہیں ،1999 میں شریف فیملی کا تمام ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا تھا جس کے باعث شریف فیملی کا ریکارڈ غائب ہو گیا، جو ریکارڈ موجود ہے اس پر عدالت میں جواب دوں گا کیونکہ 45 سال پرانا ریکارڈ عدالت میں پیش کرنا ممکن نہیں ہے ،سلمان اکرم راجہ نے عدالتی کارروائی پر سوال اٹھاتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ کیا عدالت انکوائری کے بغیر کسی نتیجے پر پہنچ سکتی ہے ، میری رائے کے مطابق بغیر انکوائری کے بغیر کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا ، وزیراعظم کیخلاف کوئی چار ج نہیں ہے اس لیے انکے بچوں کیخلاف بھی کارروائی ممکن نہیں ، میرے قانونی جواب تین بنیادوں پر ہیں ، اگر وزیراعظم کے بچوں کو نیب کے قانون کے تحت ملزم مانا جائے تو ثبوت میرے موکل کے سر نہیں ہیں ، یہ فوجداری مقدمہ نہیں اس لیے اگر حسن ، حسین ملزم بھی ہیں تو انکے کیخلاف کوئی ثبوت نہیں ہے ، سلمان اکرم راجہ نے ارسلان افتخار کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ارسلان افتخار کیس میں عدالت کہہ چکی ہے کہ ٹرائل متعلقہ فورم پر ہو سکتا ہے ، یہ معاملہ بھی تحقیقات کے لیے اداروں کو بھجوایا جا سکتا ہے ، عدالت نے کھبی بھی فوجداری مقدمات کی تحقیقات نہیں کی ہے ،آئین کا آرٹیکل دس ہر شخص کو شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے ، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ جناب راجہ صاحب پہلے آپ اپنے دلائل مکمل کر لیں پھر سوالات کے جواب دیں ، اس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ عدالت میں میاں شریف اور الثانی خاندان کے تعلقات بارے دریافت کیا گیا ہے ، نیلسن اور نیسکول کے شیئرزاور مالی فائدے بھی پوچھا گیا ہے ،ٹرسٹ ڈید پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں ٹرسٹ ڈید سمیت تمام سوالات کے جواب دوں گا ، ٹرسٹ ڈید جمع کرائی ہے جس میں سوالات کا مختصر جواب بھی موجود ہے ، سپریم کورٹ کے فیصلوں میں انٹرویو میں کہی گئی باتوں کا معاملہ ہو چکا ہے ، سپریم کورٹ یہ بھی قرار دے چکی ہے کہ عوامی مفادات کے مقدمے میں کسی کو ملزم قرار نہیں دیا جا سکتا ، قانون کے مطابق بنائے گئے اداروں کو انکا کام کرنے دیا جائے ، سپریم کورٹ نے این آئی سی ایل اور دیگر مقدمات میں اداروں سے کام لیا ہے ، سپریم کورٹ خود انکوائری نہیں کر سکتی صرف کمیشن بنائے گی ،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کمیشن فوجداری مقدمے کی طرح ٹرائل کر سکتا ہے ، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ پہلے دلائل مکمل کریں اور اسکے بعد ایسے قانونی سوالات کے جواب دیں ، جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ کیا یہ وضاحت کی جا سکتی ہے کہ لندن فلیٹس کیسے خریدے گئے ، اس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ میرا موقف ہے کہ حسن نواز نے لندن فلیٹس داد کے کاروبار سے ذریعے خریدے ،لیکن درخواست گزار کا کہنا ہے کہ یہ فلیٹس وزیراعظم کے ہیں ، درخواست گزار فلیٹس کے لیے 1999کے لندن عدالتی فیصلے کا سہارا لیتا ہے ، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عہدے کے استعمال سے لندن فلیٹ خریدے گئے ہیں ، اس پر جسٹس ا ٓصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ رحمان ملک نے اپنی رپورٹ تیار نہیں کی تھی ، اس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ ذاتی تشہیر کے لیے رحمان ملک نے وہ رپورٹ صدر مملکت کو بھجوائی اور میڈیا کو جاری کی ، رحمان ملک نے معطلی کے دوران لندن فلیٹس بارے رپورٹ تیار کی ، اس حوالے سے رحمان ملک کو سرکاری سطح پر کوئی تحقیقات نہیں سونپی گئی تھی ، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے حسین نواز کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا رحمان ملک کی رپورٹ میں ذکر کیے گئے اکاونٹ سے انکار کر سکتے ہیں اس پر سلمان اکرم راجہ نے اس رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ لاہور ہائی کورٹ بھی رپورٹ کو مسترد کر کے ملزمان کو بری کر چکی ہے ،قانون کی نظر میں رحمان ملک کی رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، شیزی نقوی کا لندن میں دیا گیا بیان بھی رحمان ملک کی رپورٹ کی بنیاد پر تھا ، سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ یہ ثابت ہے 1999میںفلیٹس وزیراعظم تو کیا شریف خاندان کے کسی بھی فرد کے نہیں ہیں ، 93سی96کے دوران الثانی خاندان نے فلیٹس خریدے ،جنوری 2006میں الثانی خاندان نے فلیٹس کے بیریئر سرٹیفکیٹ حسین نوان کے حوالے کیے، اور 2006میں ہی یہ بیریئر سرٹیفکیٹ کے شیئرز منروا کمپنی کو ملے ، اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ اس کا کیا ریکارڈ ہے ، ریکارڈ کب فراہم کریں گے آپ پہلے دن سے ادھر ادھر چھلانگے لگا رہے ہیں دستاویزات ہیں تو پیش کریں ، الزام یہ ہے کے مریم نواز نے منروا سے رابطہ کیا ، اس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ منروا سروسز فلیٹس کی دیکھ بحال کرتی ہے ، حقائق کے ساتھ جوا نہیں کھیلوں گا اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ معاملہ ایمانداری کا ہے ، جبکہ سلمان اکرام راجہ کا دوران دلائل کہنا تھا کہ قطری خاندان سے سیٹلمنٹ کے بعد کمپنیوں کے سرٹیفکیٹ ملے جس پر جسٹس آ صف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا سیٹلمنٹ حماد بن جاسم سے ہوئی یا الثانی خاندان سی اس پر رلمان اکرام راجہ کا کہنا تھا کہ سیٹلمنٹ محمد بن جاسم سے ہوئی، محمد بن جاسم کے بڑے بھائی 1991 اور والد جاسم 1999 میں وفات پا گئے تھے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ محمد بن جاسم سے کمپنیوں کے سرٹیفکیٹس حسین نواز کو کیسے ملی دوسرے قطری خط میں لکھا ہے یہ سرٹیفکیٹ ڈیلیورذ کیے گئے، قطری خط میں یہ نہیں لکھا کہ سرٹیفکیٹ حسین نواز کو دئیے ، اس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ سرٹیفکیٹس الثانی خاندان کے نمائندے نے حسین نواز کے نمائندے کے حوالے کیے، جبکہ دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ دبئی فیکٹری کے 12 ملین درھم الاثانی خاندان کے پاس پڑے ر ہے اور 26 سال تک یہ پیسہ بڑھتا رہا کیا اس سرمایہ کاری کا دستاویزی ثبوت موجود ہے ، اس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ ریکارڈ نہیں رکھا گیا، منروا کی خدمات جنوری دو ہزار چھ کے بعد حاصل کی گئیں، جولائی دو ہزار چھ میں شیئرز منسوخ کر کے منروا کے نام پر جاری ہوئے، دو ہزار چودہ میں شیئرز ٹرسٹی سروسز کو منتقل ہو گئے،شیئرز کی منتقلی حسین نواز کی ہدایت پر کی گئی ،سروسز فراہم کرنے والی کمپنیوں کو ہی مالکان کا پتہ ہوتا ہے، اس پر جسٹس گلزر احمد نے استفسار کیا کہ منروا سے پہلے کون سروسز فراہم کرتا تھا، اس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ رحمان ملک رپورٹ کے مطابق کوئی دوسری کمپنی یہ سروسز فراہم کرتی تھی، اس پر جسٹس گلزار نے استفسار کیا کہ اگر شیئرز سرٹیفکیٹ گم ہو جائیں تو مالک کس سے رابطہ کرے گا رابطہ کرنے پرشیئر ہولڈر ہونے کا ثبوت بھی دینا ہو گا، کمپنیوں اور شیئرز کا ریکارڈ کہیں نہ کہیں تو موجود ہوتا ہی ہو گا، جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا لگتا ہے معاملہ ریکارڈ پر نہیں، یادداشت پر چلتا ہے، جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ منروا کمپنی کا خط بھی یادداشت پر مبنی ہے،آخر منروا سے متعلق ریکارڈ دینے میں کیا مسئلہ ہی اس پر سلمان اکرم نے کہا کہ دو ہزار چودہ میں منروا کی سروسز ختم کر دی گئی تھیں،اب یہ منروا کی صوابدید ہے کہ وہ کیا ریکارڈ دیتی ہے اور کیا نہیں،کوشش کروں گا کہ زیادہ سے زیادہ ریکارڈ دے سکوں، اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید کو کہنا تھا کہ ایک نہ ایک دن تو ریکارڈ سامنے آنا ہی ہے، اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حسین نواز سے کہوں گا کہ منروا سے دو ہزار چھ کا ریکارڈ حاصل کریں، جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا حسین نواز کے کہنے پر منروا کمپنی ریکارڈ فراہم کر سکتی ہے،آپ کو ریکارڈ فراہم کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے ، جبکہ دلائل کے دوران سلمان اکرم راجہ کا مزید کہنا تھا کہ حسین نواز کے نمائندے نے منروا کمپنی کے نمائندے کو خط لکھا،خط مریم نواز کے بینیفشل مالک ہونے کی دستاویز سے متعلق تھا، ای میل کے جواب منروا کمپنی نے دستاویز کی تردید کی، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ حسین نواز نے منروا کمپنی کو خود خط کیوں نہیں لکھا ، ارینا کمپنی کو منروا سے رابطے کی ہدایت کس نے کی اس پر حسین نواز کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ حسین نواز نے ارینا کمپنی کو رابطے کی ہدایت کی ہو گی، جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ منروا کے جواب میں کہیں نہیں لکھا کہ مریم نواز کے دستخط جعلی ہیں، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ منروا کمپنی نے دو ہزار پانچ کے دستاویزات سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے ، ا س پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ لندن فلیٹس کو بینک کے پاس گروی رکھوایا گیا تھا، گروی رکھوانے کے دستاویزات پر کس کے دستخط تھی دو ہزار آٹھ میں فلیٹس کو گروی رکھوایا گیا تھا جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ حسین نواز نے انٹرویو میں کہا تھا کہ mordgage کی رقم آج تک ادا کر رہے ہیں، جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ مصدقہ دستاویزات آخر کون فراہم کرے گا صورتحال عجیب ہے، اصل معلومات تک رسائی کیسے ممکن ہو گی درخواست گزار نے دستاویزات دینے سے معذوری ظاہر کر دی ہے، آپ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، ہم اس معاملے کو کیسے سمیٹیں اس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ ٹرائل ہو رہا ہے نہ تحقیقات کہ تفتیشی افسر دستاویزات کی تصدیق کرا کے لائے، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تمام دستاویزات حسین نواز ہی فراہم کر سکتے ہیں، اس پر سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ جو ریکارڈ دستیاب تھا وہ عدالت کو فراہم کر دیا ہے، مزید بھی جو کچھ ممکن ہوا فراہم کریں گے، جبکہ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ یہ نہ تو کریمینل ٹرائل ہے اور نہ کریمنل ٹرائل کر سکتے ہیں،اگر سوال جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا تو پیاز کی طرح ایک کے بعد ایک پرت سامنے آتی جائے گی، سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں ہم سوالات کا سلسلہ کہاں جا کر روکیں گے، اگر سوالات کا سلسلہ جاری رہا تو یہ معاملہ کیسے نمٹے گا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قطری سرمایہ کاری 26 سال الثانی خاندان کے پاس رہیں اور میاں شریف کی ہدایت پر الثانی خاندان بوقت ضرورت رقم بھی فراہم کرتا تھا ،قطری سرمایہ کاری اور معاملات طے ہونے کا کوئی تو ریکارڈ ہو گا ، اس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ میاں شریف کی زندگی میں حسن نواز کو بزنس کے لیے قطری فنڈ دئیے ،جدہ مل کے لیے بھی فنڈز کا بندوبست بھی میاں شریف نے کیا، جدہ مل 63 ملین ریال میں 2005 میں فروخت ہوئی، ،اتفاقی طور پر جدہ مل خریدنے والی کمپنی کا نام اتفاق تھا،شریف فیملی کے ساتھ صرف ایک شاہی خاندان کے تعلقاے نہیں تھے ،بعض وجوہات کی بناء پر دیگر شاہی خاندانوں کے نام نہیں دے سکتا، شاہی خاندان شریف فیملی کو تحائف بھی دیتے رہتے ہیں اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا یہ تحائف یکطرفہ ہیں یا شریف فیملی بھی تحائف دیتی ہے ، اس پر سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے زیادہ تفصیلات کا علم نہیں ، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ لندن میں 2 بچوں کے لئے 4 فلیٹس کا بندوبست کیوں کیا گیا جس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ 2 نہیں 3 طالبعلم تھے، حمزہ شہباز کے لئے بھی ایک فلیٹ خریدا گیا تھا جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آج آپ ایک اور طالبعلم سامنے لے کر آ گئے ہیں۔
(جاری ہے)
مزید متعلقہ خبریں پڑھئیے :
متعلقہ عنوان :
جمعرات 16 فروری 2017 کی مزید خبریں
-
پشاور، مہمندایجنسی، پولیٹیکل انتظامیہ کے دفتر پر خودکش بمباروں کاحملہ،جوابی فائرنگ سے ایک ہلاک ،دوسرے نے خودکواڑادیا
-
صدر مملکت نے نیا ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرلیا
-
غازی رشید قتل کیس،پرویزمشرف کی انٹرپول کے ذریعے گرفتاری کیلئے ریڈ وارنٹ کے اجراء سے متعلق وفاقی سیکریٹری داخلہ کو نوٹس ارسال
-
لیگی وکیل کی عدم موجودگی پر عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی بارے ریفرنسز کی سماعت 22 فروری تک ملتوی
-
ملک کے تین بڑے ایئرپورٹس کی نجکاری کا فیصلہ
-
پاکستان اور روس کے درمیان ایم آئی 35 ہیلی کاپٹرز معاہدے میں مزید توسیع ہونے کا امکان
-
افغان نائب سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے جماعت الاحرار کے افغانستان سے پاکستان میں دہشت گرد حملوں پر احتجاج کیاگیا
-
حیات آباد ھماکہ میں ججز کوٹارگٹ کیاگیا،عمران خان
-
وفاقی حکومت کاپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک روپیہ اضافہ کااعلان
-
حکومت اپنی سرمایہ کاری دوست پالیسیوں اور مراعات کے ذریعے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے اور غیرملکی سرمایہ کار آزادانہ سرمایہ کاری نظام سے استفادہ کرنے کے خواہاں ہیں
-
پنجاب میں کوئی نوگو ایریا نہیں،سب اس بات پر متفق بھی ہیں، کچھ شر پسند عناصر باہر سے پنجاب میں آتے ہیں ،انہیں قابو میں لانے کے لیے سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، وزیر مملکت داخلہ محمد بلیغ ا لرحمان
-
وزیراعظم محمد نواز شریف سے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی ملاقات،داخلی سلامتی اور امن و امان کی صورتحال پر تبادلہ خیال
-
وزیراعظم محمدنوازشریف کی زیرصدارت امن وامان سے متعلق اعلیٰ سطحی اجلاس
-
کوئی بھی فریق سچ سامنے نہیں لا رہا ،سپریم کورٹ
-
شمالی کوریا رہنما کا بھائی قتل ، مشتبہ خاتون گرفتار
-
افغانستان بم دھماکے میں زخمی ہونے والے متحدہ عرب امارات کے سفیر چل بسے
-
چین اور روس کا باہمی توانائی تعاون کو تیزی سے فروغ دینے پر اتفاق
-
جاپان تیائو جزائر کے حوالے سے اصل حقائق بارے نوجوان نسل کوآگاہ کرے ،چین
-
چین ، مسلح افراد کے حملے میں 5 افراد ہلاک ، پولیس کی فائرنگ سے 3 حملہ آور مارے گے
-
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کے لئے آوازیں اٹھنے لگیں
-
برطانیہ میں 50برس بعد بھاپ سے چلنے والی ٹرین ایک بار پھر رواں دواں
-
ارجنٹائن کے دفتر استغاثہ نے صدر ماریسیو مکری کے خلاف تحقیقات کا حکم دیدیا
-
پشاورخودکش حملے کے بعد ملتان میں ججز کی سکیورٹی بڑھادی گئی
-
سپریم کور ٹ نے پیمرا کو نجی ٹی وی چینل بول کے پروگرام ’’ایسا نہیں چلے گا‘‘ کی بندش کا معاملہ تین ہفتوں میں نمٹانے کی ہدایت کر دی
-
ْجماعة الدعوة کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے خلاف وزارت داخلہ کو قانونی نوٹس بھجوا دیا گیا
-
پنجاب حکومت اور فارما مینوفیکچرز کا جعلی ادویات بنانے والوں کو سخت سزا دینے پر اتفاق
-
چیئرمین سینیٹ کی جے یو آئی (ف) کو کشمیریوں پر مظالم، بلوچستان میں تخریب کاری سمیت امور خارجہ سے متعلق امور کو سینٹ میں اٹھانے کی ہدایت
-
سمندی آمد ورفت کو بہتر بنانے کے لئے پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن 2 ماہ میںفیری شروع کرے گی،قومی فلیٹ کی صلاحیت بڑھانے کے لئے جلد نئے بڑے جہاز حاصل کئے جائیں گے،وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ میر حاصل ... مزید
-
سندھ ہائی کورٹ نے فریال تالپور کے شوہر میر منور علی تالپور کی نیب کے خلاف درخواست نمٹا دی
-
پہلی فیری سروس کراچی تا پورٹ قاسم آئندہ دو ماہ میں شروع کردیں گے، وفاقی وزیر حاصل بزنجو
-
نوشہرہ،ٹارگٹ کلرزنے اندھادھندفائرنگ کرکے پولیس اہلکارکوشہیدکردیا
-
سابق حکومت میں 2006سے 2009تک صدر اور وزیر اعظم کی غیر ملکی دوروں پر شاہ خرچیاں سامنے آگئی ہیں
-
وفاقی حکومت نے بجٹ اخراجات کے لیے مرکزی بینک سے قرض لینے کے بعد کمرشل بینکوں سے بھی قرض لینا شروع کر دیا
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.