ملک کے تین بڑے ایئرپورٹس کی نجکاری کا فیصلہ

تینوں ایئرپورٹس کی نجکاری کا فیصلہ نئی ایوی ایشن پالیسی کے تحت کیا گیا ، کابینہ نے فیصلے کی منظوری دے دی

بدھ 15 فروری 2017 16:34

اسلا م آ با د(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعرات فروری ء)وفاقی حکومت کی جانب سے ملک کے 3 اہم ہوائی اڈوں کی نجکاری کے فیصلے کے بعد ملک میں سول ایوی ایشن اتھارٹی کا مستقبل مخدوش ہو گیا۔ اہم ہوائی اڈوں کی نجکاری کے بعد سول ایوی ایشن اتھارٹی کے پاس ملک کے صرف چھوٹے غیر منافع بخش ہوائی اڈوں کے علاوہ ریگولیٹری ، اوور فلائنگ اور ائر ٹرانسپورٹ جیسے شعبے بچیں گے جس کے بعد سول ایوی ایشن اتھارٹی معاشی بدحالی کا شکار ہوسکتی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی ملک کے سب سے زیادہ منافع بخش اداروں میں سے ایک ہے جس کی سالانہ آمدنی تقریبا 60 ارب روپے ہے۔ اس کے باوجود ائرپورٹس کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ میڈیا رپو رٹ کے مطا بق حکومت پاکستان نے ملک کے تین اہم ہوائی اڈوں کی نجکاری کا فیصلہ نئی ایوی ایشن پالیسی کے تحت کیا ہے جس کی منظوری کابینہ نے دی ہے۔

(جاری ہے)

ماہرین ہوا بازی کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ سے منظوری کے بغیر نئی ایوی ایشن پالیسی پر عمل درآمد متنازع ہے ، جبکہ ایوی ایشن ڈویژ ن کا کہنا ہے کہ ایوی ایشن پالیسی کی منظوری کابینہ نے دی ہے ، اس لیے اب نجکاری کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہ گئی۔ دوسری جانب نجکاری کے عمل کو سست بنانے کے الزام میں جوائنٹ سیکریٹری ایوی ایشن ڈویژ ن اور ڈپٹی سیکریٹری لائ ڈویژ ن کو ان کے عہدوں سے ہٹا کر افسر بکار خاص بنادیا گیا ہے۔

سول ایوی ایشن اتھارٹی نے ملک کے تین سب سے اہم ہوائی اڈوں جن میں جناح انٹرنیشنل ائرپورٹ کراچی ،علامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ لاہور اور نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ائر پورٹ کے انتظامی امور اور آپریشن کی نجکاری کے لیے 8 فروری کو اشتہار جاری کیا ، جس کے مطابق کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے ہوائی اڈوں پر طیاروں کی لینڈنگ اور ٹیک آف سمیت تمام ائرپورٹ آپریشنز کو آؤ ٹ سورس کیا جا رہا ہے۔

سی اے اے افسران کا کہنا ہے کہ ائر پورٹس کی نج کاری نئی ایوی ایشن پالیسی کے تحت کی جارہی ہے جس کی منظوری وفاقی کابینہ اور وزیر اعظم نے دی ہے۔ نئی ایوی ایشن پالیسی پر عمل درآمد کے معاملے پر متضاد آرا ئکا اظہار کیا جارہا ہے۔ ایوی ایشن ڈویژن کے ذرائع کا کہنا ہے کابینہ اور وزیر اعظم کی منظوری کے بعد ایوی ایشن پالیسی پارلیمنٹ سے منظور کرانے کی ضرورت نہیں۔

دوسری جانب ماہرین کہتے ہیں کہ ملک کے اہم ترین ائر پورٹس کی نجکاری کے منفی نتائج برآمد ہوں گے ، قانون سازی کے بغیر صرف وزیر اعظم کے احکامات پر ایوی ایشن پالیسی کا نفاذ عدالتوں میں چیلنج ہو سکتا ہے۔ ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی زیرصدارت اجلاس میں ہوائی اڈوں کی نجکاری کی مخالفت کرنے پر جوائنٹ سیکریٹری ایوی ایشن ڈویڑن اور ڈپٹی سیکریٹری لائ ڈویژ ن کو او ایس ڈی بنا کر ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔

ایوی ایشن ڈویژ ن نے دونوں افسران کو او ایس ڈی بنانے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں اعلیٰ افسران نے غیر ضروری سوالات اٹھا کر نجکاری کے عمل کو سست کرنے کی کوشش کی تھی جس پر انہیں او ایس ڈی بنایا گیا۔ اس وقت پاکستان میں کراچی، لاہور، اسلام آباد کے علاوہ فیصل آباد، گوادر، ملتان، پشاور، کوئٹہ ، رحیم یار خان ، سیالکوٹ اور تربت سے بھی بین الاقوامی پروازیں آپریٹ کی جاتی ہیں مگر نوے فیصد بین الاقوامی ٹریفک ان ہی تین ہوائی اڈوں پر ہے جن کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایسے ائرپورٹ جہاں پر بین الاقوامی پروازیں آپریٹ نہیں کی جاتی ہیں اور صرف اندرون ملک کی پروازوں کی آمدورفت ہے ، پروازوں کی کم تعداد کی بناء پر خسارے کا شکار ہیں۔

متعلقہ عنوان :