سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت

سپریم کورٹ نے رجسٹرار آفس کو کمیشن رپورٹ سے متعلق ریکارڈ وزارت داخلہ کو دینے کا حکم دیتے ہوئے بلوچستان بار کو وزارت داخلہ کے اعتراضات پر جواب داخل کرنے کیلئے 12 دن کی مہلت دیدی وزیر داخلہ کے وکیل کی جانب سے خفیہ اداروں کی رپورٹ کی نقول فراہم کرنے کی استدعا مسترد کردی گئی جو کام تحقیقاتی اداروں کے ہوتے ہیں وہ ججز کو کرنے پڑتے ہیں، ججز تحقیقات کرنے لگیں گے تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے، افسران کی تربیت اور ایمانداری نہ ہونا بدقسمتی ہے، جسٹس امیر ہانی مسلم سانحہ کوئٹہ بدقسمتی کا واقعہ تھا جس میں وکیل شہید ہوئے، ایک واقعے میں اتنی تعداد میں وکلاء کا شہید ہونا تکلیف دہ بات تھی، ریمارکس

پیر 6 فروری 2017 18:22

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔7فروری۔2017ء)سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کیس میں رجسٹرار آفس کو کمیشن رپورٹ سے متعلق ریکارڈ وزارت داخلہ کو دینے کا حکم دیتے ہوئے بلوچستان بار کو وزارت داخلہ کے اعتراضات پر جواب داخل کرنے کیلئے 12 دن کی مہلت دیدی ہے ، جبکہ وزیر داخلہ کے وکیل کی جانب سے خفیہ اداروں کی رپورٹ کی نقول فراہم کرنے کی استدعا مسترد کردی ہے ،جبکہ دوران سماعت جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جو کام تحقیقاتی اداروں کے ہوتے ہیں وہ ججز کو کرنے پڑتے ہیں، ججز تحقیقات کرنے لگیں گے تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے، افسران کی تربیت اور ایمانداری نہ ہونا بدقسمتی ہے، ہمیں کمیشن رپورٹ پر اعتراضات سننے اور فیصلہ دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ،قومی مفاد کی بات کر رہے ہیں،کوئی حکومت بھی نہیں چاہتی کے دہشت گردی کے ایسا واقعات رونما ہوں، لیکن انسانوں سے کوئی نہ کوئی غلطی ضرور ہو سکتی ہے ، ایک آدمی جو تباہی مچانا چاہتا ہے اسے روکنا آسان کام نہیں۔

(جاری ہے)

کیس کی سماعت جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔ مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی تو بلوچستان کے ایڈوکیٹ جنر ل نے عدالت کو بتایا کہ ہم کمیشن کی رپورٹ پر من عن عمل کر رہے ہیں ،سیکرٹری پبلک ہیلتھ شیخ نواز ، سیکرٹری این ڈبلیو رحمد اللہ زہری ،سیکرٹری ہیلتھ ڈاکٹر عمر اور سہل مرزا کو انکے عہدے سے ہٹا کر انکے بنیادی اداروں میں بھجوا دیا گیا ہے ، جبکہ ان افسران میں سے دو نے حکومت کے نوٹیفکیشن کو ہائی کورٹ میں چلینج کیا ہے جبکہ ایک نے سروس ٹربیونل میں چیلنج کیا ہے ، اس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ ہائی کورٹ سپریم کورٹ کے حکم پر حکم امتنائی نہیں دے سکتی ہے ، عدالت عظمیٰ نے تینوں افسران کو ذاتی طور میں طلب کرتے ہوئے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی ہے کہ چیف سیکرٹری افسران کو بتا دیں کہ تینوں کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی ، جبکہ عدالت عظمیٰ نے چیف سیکرٹری کو بھی صوبے میں متعلقہ عہدوں پر اہل افراد کا تقرر کریں، جبکہ دوران سماعت جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سانحہ کوئٹہ بدقسمتی کا واقعہ تھا جس میں وکیل شہید ہوئے، ایک واقعے میں اتنی تعداد میں وکلاء کا شہید ہونا تکلیف دہ بات تھی، معاملے کی تحقیقات کے لئے ہی کمیشن بنایا گیا تھا، کوئی حکومت بھی نہیں چاہتی کے دہشت گردی کے ایسا واقعات رونما ہوں، لیکن انسانوں سے کہیں کوئی نہ کوئی غلطی ضرور ہو سکتی ہے ، ایک آدمی جو تباہی مچانا چاہتا ہے اسے روکنا آسان کام نہیں، ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے وزیرداخلہ کے وکیل مخدوم علی خان سے استفار کیا کہ کیا آپ کو کمیشن کی اتھارٹی پر اعتراض ہے، بہتر ہو گا کمیشن رپورٹ پر اعتراضات واپس لے لیں ،اس پر وزیر داخلہ کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ مجھے اعترضات پر دلائل دینے کی ہدایت کی گئی ہے ،اس پر جسٹس امیر ہانی کا کہنا تھا کہ اعترضات پر دلائل سن کر ہی فیصلہ کر سکتے ہیں ،کمیشن آبزرویشن اثر نہیں رکھتی اگر فیصلہ دیا تو نتائج سنجیدہ نکل سکتے ہیں ، جبکہ مخدوم علی خان نے کہا کہ کمیشن نے جو آبزرویشن دی ہیں وہ ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتیں، کسی جماعت کو کالعدم قرار دینے کے لئے تین ماہ درکار ہوتے ہیں، پابندی کا ریفرنس آنے کے بعد حساس اداروں سے بھی رپورٹ لی جاتی ہے،رپورٹ میں کہا کہ وزارت داخلہ افسران عوام کے بجائے وزیر کی خدمت میں دلچسپی رکھتے ہیں،رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیر داخلہ کو وزارت کے امور کی سمجھ نہیں، کیا کمیشن رپورٹ کے یہ ریمارکس تضحیک آمیز نہیںہیں ، اس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے مخدوم علی خان سے استفسار کیا کہ کیا آپ کمیشن کے کام کی ستائش نہیں کرتے، اگر آپ اعتراضات واپس لے لیں تو وزیر کے لفظ کو وازرت سے بدل دیتے ہیں،کیا آپ کے لئے لفظ کی تبدیلی قابل قبول ہوگی، اس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ یہ بات جزوی طور پر تو قابل قبول ہوسکتی ہے ، جبکہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جو کام تحقیقاتی اداروں کے ہوتے ہیں وہ ججز کو کرنے پڑتے ہیں، جو کام بھی کمیشن نے کئے کیا وہ اس کے کرنا کا کام تھا، ججز تحقیقات کرنے لگیں گے تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے، افسران کی تربیت اور ایمانداری نہ ہونا بدقسمتی ہے، ہمیں اعتراضات سننے اور فیصلہ دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ،قومی مفاد کی بات کر رہے ہیں ، آپ نے کمیشن کی تعریف میں صرف دو سطور لکھیں ہیں ، اس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ اگر عدالت 200صفحات کی تعریف چاہتی ہے تو وہ بھی لکھ دیں گے ،اس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں آبزرویشن دی ہیں فائنڈنگ نہیں دی ،پنجاب میں بھی بعض جگہ ٹھیک نہیں ہورہا تھا لیکن کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا،پھر پنجاب میں اس جگہ کچھ وقت کے بعد کیا ہوا، ،وزارت داخلہ اعتراضات پر زور دے گی تو پھر ہمیں شواہد بھی دیکھنا ہونگے، شواہد کو دیکھنے کے بعد ہوسکتا ہے کہ فائنڈنگ مزید سخت ہوجائیں، جسٹ،ذاتی معاملے کو چھوڑ کر قومی مفاد کو بھی مدنظر رکھیں ، جبکہ دوران سماعت وزیر داخلہ کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت سے کوئٹہ کمیشن کی کارروائی کا تمام ریکارڈ فراہم کرنے کی استدعا کی اور کہا کہ خفیہ اداروں کی رپورٹ کی نقول بھی فراہم کی جائے جس پر عدالت عظمیٰ نے وزیرداخلہ کے وکیل کی جانب سے خفیہ کی رپورٹ فراہم کرنے کی استدعامسترد کرتے ہوئے رجسٹرار آفس کو کمیشن رپورٹ کی کارروائی فراہم کرنے کا حکم دیدیا ہے اور کہا کہ فراہم کردہ ریکارڈ میں ایجنسیز کی رپورٹ شامل نہیں ہو گی ، جب رپورٹس کو خفیہ رکھنے کا استقاق مانگا گیا ہے وہ نہیں دے سکتے قومی سلامتی کا معاملہ ہے ۔

عدالت عظمیٰ نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی ہے ۔