سانحہ کوئٹہ سے متعلق کمیشن کی رپورٹ پر وزرارت داخلہ کے اعتراضات سپریم کورٹ میں پیش

سانحہ سے متعلق رپورٹ مرتب کرتے وقت حقائق کو مد نظر نہیں رکھا گیا ، وزیر داخلہ،وزارت داخلہ کے خلاف آبزرویشن انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے ، وزرارت داخلہ

ہفتہ 4 فروری 2017 14:34

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔5فروری۔2017ء)سانحہ کوئٹہ از خود نوٹس کیس میں وزرات داخلہ نے کوئٹہ کمیشن کی وزیر داخلہ،وزارت داخلہ کے خلاف آبزرویشن کوغیر ضروری اور انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دہتے ہوئے کہا ہے کہ سانحہ کوئٹہ سے متعلق رپورٹ مرتب کرتے وقت حقائق کو بھی مد نظر نہیں رکھا گیا بلکہ حقائق کا پتہ چلائے بغیر آبزرویشن دی گئی ہیں ، ہفتہ کے روز وزرارت داخلہ کی جانب سے سانحہ کوئٹہ سے متعلق کمیشن کی رپورٹ پر اپنے اعتراضات سپریم کورٹ میں جمع کرا ددیئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ 8 اگست کو کوٹہ میں ہونے والا واقع قومی سانحہ ہے ،جس میں متعدد معصوم شہریوں اور وکلاء کی بڑی تعداد دہشتگردی کا شکار ہوئے ، اس سانحہ کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے ،وزارت داخلہ اور پاک آرمی ملکر دہشت گردی کے خاتمہ اور امن و امان کی بحالی کے لیے اقدمات کر رہے ہیں ،ملک بھر میں 7522 نانفارمیشن بیس اور ایک لاکھ 52 ہزار سے زیادہ کومبنگ آپریشن کیے گئے،جن کے نتیجے میں 5 ہزار چھ سو گیارہ دہشت گرد گرفتار ہو ئے،جبکہ آپریشن میں 1865 دہشت گرد ہلاک ہوئے، 2014 کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے 2009 میں 1938جبکہ 2013 میں 1576 دہشت گردی کے واقعات ہوے، 2013 میں جنگجووں سے باقاعدہ مذاکرات کا آغاز کیا گیا،مذاکرات کے دوران احساس ہوا کہ جنگجو حکومت سے ڈبل گیم کر رہے ہیں 12جون 2014کو وزیر اعظم کے زیر صدارت اجلاس میں آ پریشن کا فیصلہ کیا گیا اور ملٹری آپریشنز سے پہلے شہریوں کی تحفظ کیلئے عملی اقدمات کیے گئے فوج نے شہروں کے تحفظ کیلئے 20 ہزار جوان دیئے جبکہ 2016 میں 769 واقعات پیش ہیں، وزات داخلہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آرمی پبلک سکول،واہگہ بارڈر سمیت متعدد واقعات سے بہت پہلے سیکورٹی الرٹ جاری کیے گئے، نیکٹا کا بجٹ بڑھا کر 1.56 ارب روپے کر دیا گیا ہے جبکہ ملک بھر میں شناختی کی تصدیق کو عمل شروع کیا گیا اور 95959 شناختی کارڈ منسوخ،چار لاکھ 50 ہزار شناختی کارڈ کو عارضی طور پر بلاک کیا گیا ہے، اور ایگزیکٹ کنڑول لسٹ کو کمپیوٹرائزڈ کیا گیا، رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ وزارت داخلہ میں وی آئی پی کلچر کو ختم کرتے ہوئے 775 سرکاری افسران کو فارغ کیا گیا، وزرات داخلہ کی رپورٹ میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ کالعدم تنظیموں پر پابندی کے لیے تین ماہ کا عرصہ درکار ہو تا ہے، جماعت احرار پر پابندی کی درخواست 16 اگست کو کی گئی 11 نومبر کو جماعت احرار کو کالعدم تنظیموں میں شامل کر دیا گیا، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 21 اکتوبر کو وزیر داخلہ نے دفاع پاکستان کونسل کے وفد سے ملاقات کی، دفاع پاکستان کونسل کالعدم تنظیم نہیں ہے ،دفاع پاکستان کونسل کے ساتھ مولانا احمد لدھیانوی کی آمد سے وزیر داخلہ بے خبر تھے، اعتراضات میں مزید کہا گیا ہے کہ کھلی عدالت میں اعترا ضات کے باوجود وزارت داخلہ کو ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا، مزید ریکارڈملنے پر اپنے اعترا ضات دائیر کرنے کا حق رکھتے ہیں، وزارت داخلہ کے اعتراضات میں کہا گیا ہے کہ وزرات داخلہ اور وزیر داخلہ کیخلاف کمیشن کی آبزرویشن غیر ضروری اور انصاف کے تقاضوں کے منافی ہیں، بے بنیاد ابزرویش حذف کیے جائیں �

(جاری ہے)