حکومت نے کاشتکاروں کو مہنگے قرضے دینے کا اعتراف کر لیا

پرائیویٹ بینکوں پر کوئی اختیار نہیں، کاشتکاروں سے صرف ترقیاتی قرضوں پر 145فیصد وصول کئے جاتے ہیں،کم قرضوں کی وجہ سے شرح سود میں اضافہ ہو جاتا ہے، رانا افضال تاریخ میں کسانوں سے سب سے زیادہ دشمنی موجودہ حکومت نے کی، شیخ فیاض الدین حکومت اور اپوزیشن کے اراکین کا کاشتکاروں کو مہنگے قرضے فراہم کرنے پر شدید احتجاج مہنگے قرضے حکومت کی ملک دشمن پالیسی ہے ، ارا کین اسمبلی

جمعرات 2 فروری 2017 11:37

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔2فروری۔2017ء) وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی میں کاشتکاروں کو مہنگے قرضے دینے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ پرائیویٹ بینکوں پر حکومت کا کوئی اختیار نہیں ہے جبکہ حکومت اور اپوزیشن کے اراکین نے کاشتکاروں کو مہنگے قرضے فراہم کرنے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اسے حکومت کی ملک دشمن پالیسی قرار دیا ہے بدھ کے روز ایوان زیریں میں پارلیمانی لیڈر رانا افضال نے توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے اعتراض کیا کہ پاکستان میں زرعی قرضہ جات بہت مہنگے ہیں اور اس معاملے کومتعلقہ کمیٹی میں لائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان سے کمرشل بینکوں کی جانب سے 80فیصد جبکہ زرعی ترقیاتی بینک کی جانب سے 20فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی بینک کی انتظامی اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے شرح سود بہت زیادہ ہے چونکہ زراعت کا معاملہ صوبوں کے پاس ہے اور صوبائی حکومتیں بھی زراعت کے لئے سبسڈی دے رہی ہیں ۔

(جاری ہے)

توجہ دلاؤ نوٹس کے محرک حکومتی رکن اسمبلی رانا محمد حیات نے کہا کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود چاول اور کاٹن کی برآمداد کم ہوتی ہیں ۔

سٹیٹ بینک کے شرح سود کم ہے مگر زرعی شعبے کو اب بھی 16فیصد سے زائد شرح سود پر قرضے ملتے ہیں۔ یہ حکومت کی زرعی شعبے کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت جس طرح صنعتی شعبے کو 6.5فیصد شرح سود پر قرضے دیئے جاتے ہیں اس نرخ پر زمینداروں کو دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ صنعت کار اربوں روپے ہڑپ کر چکے ہیں مگر زمینداروں کو 10ہزار سے زائد قرضے نہیں ملتے ہیں۔

جس پر رانا محمد افضال نے کہا کہ میری بھی یہی خواہش ہے مگر جو حالات ہیں اس کی وجہ سے مجبور ہیں۔ اس سلسلے میں سلیکٹ کمیٹی بنائی گئی ہے وہ جو بھی سفارش دے گی اس کو تسلیم کریں گے انہوں نے کہا کہ زرعی شعبے میں برآمدات کی کمی کی بڑی وجہ تحقیق کے نہ ہونے کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کے شعبے میں 80ارب روپے کے قرضے ہڑپ کئے گئے ہیں جو کو حکومت نے ایکویٹی میں تبدیل کیا ہے۔

رکن اسمبلی رشید احمد خان نے کہا کہ پارلیمانی سیکرٹری خزانہ کی معلومات درست نہیں ہیں اس ملک کا کاشتکاروں کو مہنگے قرضے دیکر اس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج مین پاکستان میں زرعی کھاد اور بیجوں کی قیمتیں زیادہ ہیں اور بجلی بھی مہنگی دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر صنعت کاروں کو سستے قرضے دیئے جاتے ہین تو زرعی شعبے کو کیوں نہیں دیئے جا رہے ہیں۔

جس پر پارلیمانی سیکرٹری رانا محمد افضال نے کہا کہ کاشتکاروں سے صرف ترقیاتی قرضوں پر 145فیصد وصول کئے جاتے ہیں اور کم قرضوں کی وجہ سے شرح سود میں اضافہ ہو جاتا ہے انہوں نے کہا کہ کمرشل بنک زیادہ قرضے دیتے ہیں۔ رکن اسمبلی شیخ فیاض الدین نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں کسانوں سے سب سے زیادہ دشمنی موجودہ حکومت نے کی ہے ۔ حکومت نیشنل بینک اور سٹیٹ بینک کو ہدایت دے کہ کسانوں کو کم شرح سود پر قرضے دیئے جائیں ۔

انہوں نے موجودہ حکومت کی کسان دشمن پالیسیوں کی شدید مزمت کی جس پر پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ موجودہ حکومت نے زراعت کی بہتری کے لئے انقلابی اقدامات کئے ہیں۔ رکن اسمبلی معین وٹو نے کہا کہ زراعت کے مقابلے میں صنعت کاروں کو زیادہ فوائد دیئے جاتے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کاشتکاروں کو دیئے جانے والے قرضے پر شرح سود کم ہو گا یا نہیں جس پر پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ پاکستان میں بنک کمرشل ہیں جس پر یقین دہانی نہیں دے سکتا ہوں۔

ایوان کی جانب سے قانون سازی کے بعد ہی فیصلہ کیا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انڈسٹری بڑے برے قرضے لیتی ہے جس کی وجہ سے ان کا شرح سود کم ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں دنیا کی مہنگی چینی پیدا ہو رہی ہے جس پر حکومت سبسڈی دے رہی ہے۔

متعلقہ عنوان :