پانامہ کیس: شریف خاندان کے وراثتی جائیداد کی تقسیم کا ریکارڈ عدالت میں جمع کرا دیا گیا

ہم حقیقت جاننا چاہتے ہیں پیسہ کہاں سے آیا؟ اس بارے کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی ،جسٹس آصف سعید کھوسہ عدالت کیس کے ہر پہلو کو جاننا چاہتی ہے، سماعت کے دوران ریمارکس دبئی فیکٹری سے قرض کب اور کس چیز پر لیا گیا ، ریکارڈ سامنے لایاجائے،جسٹس اعجاز الحسن قرض سے متعلق کوئی ریکارڈ موجود نہیں ، 18 ملین درہم شریف فیملی کو دبئی فیکٹری کی فروخت سے ملے ، دبئی فیکٹری کے لئے پیسہ پاکستان سے نہیں گیا ،سلمان اکرم راجہ کا جواب نیب اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا حدیبیہ پیپر ملز کیس میں اپیل دائر نہیں کی جائے گی ،نیب پراسیکوٹر جنرل ، عدالت نے نیب سے اجلاس کی کارروائی کے منٹس طلب کر لئے سماعت آج بھی جارہے گی، سلمان اکرم راجہ دلائل جاری رکھیں گے

منگل 31 جنوری 2017 12:16

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔31جنوری۔2017ء) سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کیس کی سماعت کے دوران بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہم اس حقیقت کو جاننا چاہتے ہیں کہ پیسہ کہاں سے آیا؟ اس حوالے سے کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی ۔ موقف دیا گیا کہ قرض لے کر دبئی میں فیکٹری لگائی گئی ۔ انہوں نے حسین نواز اور حسن نواز کے وکیل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ پیسہ جدہ سے لندن گیا دوسری میں کہا کہ دبئی سے جدن اور پھر لندن گیا جبکہ حسین نواز کہہ رہے ہیں قطر سے لندن گیا ۔

عدالت کیس کے ہر پہلو کو جاننا چاہتی ہے ۔ جسٹس اعجاز الحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ قرض کے حصول کے لئے بنک سے رابطہ کیا گیا مگر رقم منتقل کرنے کے لئے بنک کا استعمال نہیں کیا گیا ۔

(جاری ہے)

ریکارڈ سامنے لایاجائے ۔ تو پتہ چل سکتا ہے انہوں نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ دبئی فیکٹری سے قرض کب اور کس چیز پر لیا گیا ۔ جس پر سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ قرض سے متعلق کوئی ریکارڈ موجود نہیں ۔

18 ملین درہم شریف فیملی کو دبئی فیکٹری کی فروخت سے ملے ۔ دبئی فیکٹری کے لئے پیسہ پاکستان سے نہیں گیا ۔ نیب کے پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نیب کے اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ حدیبیہ پیپر ملز کے کیس میں اپیل دائر نہیں کی جائے گی ۔ جس پر عدالت نے نیب سے اجلاس کی کارروائی کے منٹ طلب کر لئے ۔ وزیر اعظم کے وکیل نے شریف خاندان کے وراثتی جائیداد کی تقسیم کا ریکارڈ عدالت میں جمع کرا دیا ہے ۔

کیس کی سماعت پیر کے روز جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل ‘ جسٹس گلزار احمد ‘ جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی ۔ کیس کی سماعت کے دوران مریم صفدر ‘اور اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ اسحاق ڈار کے خلاف نااہلی کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل خارج ہوئی ۔

نواز شریف اور دیگر کے خلاف ریفرنس خارج کرنے کا فیصلہ رپورٹ کیا جا چکا ہے ۔ جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فیصلے میں ریفرنس خارج اور تصدیق نہ کرنے کا کہا گیا تھا جس پر شاہد حامد نے کہا کہ دوبارہ تفتیش کرانے کے معاملے پر دو رکنی بنچ میں اختلاف تھا اس لئے فیصلہ ریفری جج نے سنا ۔اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا گیا ۔ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا وقت ختم ہو چکا ۔

جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ دلائل ختم کر دیں پھر پراسیکیوٹر جنرل نیب سے پوچھیں گے جسٹس اعجاز افضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اسحاق ڈار کا اعترافی بیان وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد ریکارڈ ہوا ۔ اس پر شاہد حامد نے کہا کہ اسحاق ڈار پر منی لانڈرنگ کیس ختم ہو گیا ۔اب الزام کی بنیاد پر نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا ۔منی لانڈرنگ کے وقت اسحاق ڈار کے پاس عوامی عہدہ نہیں تھا ۔

نیب ریکارڈ کے مطابق اسحاق ڈار اب ملزم نہیں رہے ۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ وعدہ معاف گواہ بننے والے کی حفاظت کے لئے اسے تحویل میں رکھا جاتا ہے کیا بیان ریکارڈ کرنے والا مجسٹریٹ احتساب عدالت میں پیش ہوا ۔ جس پر شاہد حامد نے کہا کہ اس وقت نیب قوانین کے تحت مجسٹریٹ کا پیش ہونا ضرو ری نہیں تھا ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ اسحاق ڈار کو مکمل معافی دی گئی ۔

چیئرمین نیب کو دی گئی درخواست انہوں نے خود تحریر کی اور خود ہی معافی کے بعد یہ ملزم نہیں رہے جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ وعدہ معاف گواہ کا بیان اس کے خلاف استعمال ہو سکتا وزیر اعظم کے خلاف ہو سکتا ہے ۔شاہد حامد نے کہا کہ اسحاق ڈار سے بیان یہ کہہ کر لیا گیا تو بیان نہ دیا تو اٹک قلعہ سے نہیں جانے دیا جائے گا ۔ ضابطہ فوجداری 26 کے تحت اسحاق ڈار کا دوبارہ ٹرائل نہیں ہو سکتا ۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم اسحاق ڈار کے اعترافی بیان پر قانون کے علاوہ غور نہیں کریں گے ۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ اس نقطے پر دلالئل دیں کہ ایک شخص کا دو مرتبہ ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں ۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیا وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد اسحاق ڈار کے خلاف نااہلی کا حکم جاری نہیں کیا جا سکتا ۔ پراسیکیوٹر نیب نے اسحاق ڈار کیس سے متعلق عدالت کو بتایا نیب اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ حدیبیہ مل کیس میں اپیل دائر نہیں کی جائے گی جس عدالت نے نیب اجلاس کی کارروائی کے منٹ طلب کر لئے ۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یا اسحاق ڈار نے درخواست خود لکھی تھی ۔عدالت نے نیب ایس پی سی پی اور سٹیٹ بنک نے اسحاق ڈار کے خلاف اپیل دائر نہیں کی تھی ۔ اٹارنی جنرل سے اس حوالے سے جواب طلب کر لیا ہے ۔حسن اور حسین نواز سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ میرے کیس کے تین پہلو ہیں ۔ تینوں پر دلائل دوں گا ۔ حسین نواز لندن فلیٹس کے بینفیشل مالک ہیں وزیر اعظم کا لندن فلیٹس سے کوئی تعلق نہیں ۔

جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ کو ثابت کرنا ہو گا کہ جائیدادیں آپ کی ہیں اور یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ نواز شریف لندن فلیٹس کے مالک نہیں ۔ الزام یہ ہے کہ لوٹی ہوئی رقم سے منی لانڈرنگ کی گئی۔ جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ منی لانڈرنگ کا تعین آرٹیکل 184/3 کے مقدمے میں نہیں ہو سکتا ۔ دوسر ے ادارو ں کا کام عدالت نہیں کر سکتی ۔جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ حسین نواز وزیر اعظم کے بیٹے ہیں حسین نواز کہتے ہیں کہ وہ کمپنیوں کے بینیفیشل مالک ہیں ۔

اس حوالے سے ریکارڈ سامنے لائیں تو حقائق کا پتہ چل سکتا ہے ۔کمپنیوں کے ریکارڈ کے رسائی حسین نواز کو ہے اور آف شور کمپنیوں کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا جائے ۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت پہلے قانون دیکھ لے شواہد فراہم کرنا الزام لگانے والوں کی ذمہ داری ہے ۔جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ گلف فیکٹری کے لئے قرض کب کس چیز پر اور کن شرائط پر لیا گیا ۔

جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ قرض کے حوالے سے کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ۔یہ طے شدہ ہے کہ دبئی فیکٹری 1973 میں قائم کی گئی اس کے 75 فیصد شیئر کی رقم بنک قرضے کی مد میں واپس کر دی گئی ۔ جس پر عظمت سعید نے کہا کہ گلف فیکٹری کے واجبات 36 ملین تھے اس کی مکمل قیمت فروخت 33.35 ملین درہم بنتی ہے ۔فیکٹری کے واجبات کیسے ادا ہوئے بتایا جائے ۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بظاہر تو کمپنی خسارے میں چل رہی تھی تو 12 ملین درہم کا منافع کیسے ہوا ۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میاں شریف کو کاروبار کا چار دہائیوں کا تجربہ ہے ۔ دبئی کی رائیل فیملی نے اسٹیل پلانٹ لگانے کے لئے میاں شریف کو ویلکم کیا ۔ 1980 میں فیکٹری کے باقی 25 فیصد شیئر کی فروخت سے 12 ملین درہم ملے ۔ چالیس سال کا ریکارڈ سنبھالنے کی کیا ضرورت تھی یہ اکاؤنٹ میاں شریف کے تھے حسن اور حسین نواز کے نہیں تھے ۔ان چیزوں کا ریکارڈ مانگا جا رہا ہے جن کا تعلق میاں شریف مرحوم سے ہے ۔

1980 میں دبئی سٹیل کی فروخت کی دستاویزات پر طارق شفیع نے خود دستخط کئے ۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ طارق شفیع کے دستخطوں میں بہت زیادہ فرق لگتا ہے ۔ ان سے بیان حلفی اور فیکٹری فروخت کے معاہدے پر دستخطوں میں واضح فرق ہے ۔ جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دستخطوں پر فرق آ جاتا ہے ۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ نے ہمارے ذہن کو کلیئر کرنا ہیں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم کیس کے ہر پہلو کو جاننا چاہتے ہیں کہ جو آپ کہانی سنا رہے ہیں وہ پہلے بھی سنی جا چکی ہے ۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ثبوتوں کا انبار لگا دوں گا ۔ جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت میں معاملہ چار فلیٹوں کا ہے ۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا اونٹوں پر لاد کر رقم دبئی پہنچائی گئی ۔جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ نقد رقم پر دنیا بھر میں کاروبار ہوتا ہے غلط مطلب نہ لیا جائے ۔جس پر عظمت سعید نے کہا کہ جن سوالوں کا جواب نہ آئے ان کا کیا جائے ۔سلمان اکرم نے کہا کہ مجھ سے حسن اور حسین کے بارے میں پوچھا جائے اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ پیچھے کوئی بھی نہیں رہ گیا ۔ عدالت نے کیس کی سماعت آج تک کے لئے ملتوی کر دی ۔ سلمان اکرم راجہ اپنے دلائل جاری رکھیں گے جبکہ شاہد حامد نے اپنے دلائل مکمل کر لئے ہیں ۔