پانامہ کیس ،کوئی نہیں چاہتا کہ سچ سامنے آئے،فریقین خود نہ چاہیں توکیا کرسکتے ہیں،سپریم کورٹ

ریکارڈ کے مطابق آف شور کمپنیوں سے کوئی آمدن نہیں ہوئی،اتناپیسہ کہاں سے کمایاجاتا ہے جو پاکستان آرہا ہے، کوئی فریق مکمل تحقیقات چاہتا ہی نہیں ،کوئی نہیں چاہتا کہ سچ سامنے آئے،فریقین خود ہی نہ چاہیں تو عدالت کیا کرسکتی ہے ،جسٹس شیخ عظمت سعید

بدھ 18 جنوری 2017 14:09

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔19جنوری۔2017ء)سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق آف شور کمپنیوں سے کوئی آمدن نہیں ہوئی،اتناپیسہ کہاں سے کمایاجاتا ہے جو پاکستان آرہا ہے، کوئی فریق مکمل تحقیقات چاہتا ہی نہیں ،کوئی نہیں چاہتا کہ سچ سامنے آئے،فریقین خود ہی نہ چاہیں تو عدالت کیا کرسکتی ہے۔

بدھ کوسپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

(جاری ہے)

سماعت شروع ہوئی تو وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ مریم نواز اپنے والد کے زیرکفالت نہیں،وزیراعظم نے مریم نواز کو تحائف بینکوں کے ذریعے دیئے۔جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ بینکنگ دستاویزات مصدقہ ہیں یا نہیں ۔مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ اکائونٹ نمبر دیئے ہوئے ہیں بینک سے ری چیک کیا جاسکتا ہے،بینک تفصیلات مخفی رکھنے کا حق ہر ایک کو حاصل ہے،وزیراعظم نے عدالت سے کچھ نہیں چھپایا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یاد نہیں پڑتا1.9ملین کا تحفہ شریف فیملی کے ٹیکس ریٹرن میں فائل ہو۔مخدوم علی خان نے کہا کہ تحفہ آیا ہے،یہ دوسرا فریق بھی تسلیم کرتا ہے لیکن اس پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ وکیل کہتے ہیں حسن نواز ملک چھوڑ چکے تھے لہذا ٹیکس استثنیٰ حاصل نہیں۔مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیراعظم کے ویلتھ اور انکم ٹیکس گوشوارے عدالت میں جمع ہیں،تحائف کا ذکر وزیراعظم کے گوشواروں میں موجود ہے،الزام ہے کہ آمدن کو تحائف ظاہر کرکے ٹیکس چھپایا گیا ہے۔

مخدوم علی خان نے کہاکہ رقم حسین نواز نے سعودی عرب سے 2010-11میں بھیجی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ عزیزیہ اسٹیل تو2005 میں فروخت ہوگئی تھی،حسین کا اس کے بعد سعودی عرب میں کیا کاروبارتھا ۔مخدوم علی خان نے کہا کہ حسین نواز کے کاروبار کی تفصیلات ان کے وکیل دیں گے ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ کیس کا ایک حصہ منی لانڈرنگ سے متعلق بھی ہے،الزام ہے غیر قانونی طریقے سے رقوم بیرون ملک منتقل کی گئیں،رقم منتقلی کے حوالے سے آپ کو تفصیلات دینا ہوں گی۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ پہلا سوال یہ ہے کیا پاکستان سے کوئی رقم باہر گئی،کسی تکنیکی نکتے کے پیچھے چھپنے کی کوشش نہیں کروںگا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ اس معاملے کی پہلے بھی تحقیقات ہوچکی ہیں،تحقیقات میں بعض افراد کے نام بھی سامنے آئے۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ اسحاق ڈار کا اعترافی بیان بھی سامنے آیا تھا،اعترافی بیان میں کئی لوگوں کے نام بھی تھے،تکنیکی بنیادوں پر منی لانڈرنگ والی تحقیقات مسترد ہوئیں،نیب نے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل بھی دائر نہیں کی،درخواست گزار نے نیب کے خلاف کارروائی کی استدعا کی ہے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ منی لانڈرنگ تحقیقات میں نامزد ملزمان کو شامل نہیں کیا گیا۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ نیب کو اپیل دائر کرنے کا حکم دینے کی بھی استدعا کی گئی ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ بلیک منی کو وائٹ کرنے کیلئے منی لانڈرنگ کی جاتی ہے،منی لانڈرنگ کرکے وہی رقم واپس پاکستان بھجوائی جاتی ہے،بلیک منی وائٹ کرنے والی بات نوازشریف کے حوالے سے نہیں کی،رحمان ملک رپورٹ میںحوالااور ہنڈی سے رقم باہر بھیجنے کا ذکر ہے۔

مخدوم علی خان نے کہاکہ منی لانڈرنگ بیرون ملک بھی ہوتو حکام یہاں رابطہ کرتے ہیں،درخواست گزار نے خود تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے،تحقیقات سے قبل آرٹیکل63نااہلی کیسے ہوسکتی ہے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ گوشواروں میں کوئی اور کالم نہ ہونے پر مریم نواز کا نام زیرکفالت میں لکھا گیا،ٹیکس فارم میں بعد ترمیم کی گئی،ٹیکس فارم میں ترمیم کے بعد اضافی کالم شامل کیا گیا،یہ کہنا کسی صورت درست نہیں کہ مریم نواز کو زیرکفالت تسلیم کیا گیا،نوازشریف نے مریم کے نام پر زمین خریدی تھی۔

جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کیا یہ جائیداد بے نامی تو نہیں تھی ۔وکیل نے کہا کہ ایسے معاملات کیلئے ٹیکس قوانین اور فارم میں ترمیم2015میں کی گئی۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کیا تبدیلی پانامہ پیپرز آنے کے بعد کی گئی۔مخدوم علی خان نے کہا کہ ٹیکس فارم میں ترمیم اگست2015میں کی گئی،پانامہ لیکس اپریل2016میں سامنے آئی۔مخدوم علی خان نے کہاکہ 2012میں جائیداد مریم نواز کے نام منتقل ہوچکی تھی،2012میں مریم نے جائیداد کی رقم نوازشریف کو منتقل کردی تھی،رقم بینک کے ذریعے منتقل کی گئی،جائیداد نوازشریف کی2012کے گوشواروں میں جمع نہیں کرائی گئی،ممکن ہے 2011میں مریم کے پاس اتنے پیسے بھی موجود نہ ہوں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نوازشریف نے مریم کو تحفے میں بھی رقوم دی تھیں،نوازشریف نے حسین نواز سے تحفہ لے کر مریم کو کب دیا تھا ممکن ہے مریم نے والد سے تحفہ لے کر رقم واپس والد کو دی ہو،ہوسکتا ہے رقم غیر قانونی طریقے سے منتقل ہوئی ہو،وہی رقم تحفے کی شکل میں والد کو آئی اور بیٹی کو چلی گئی،اس سارے عمل میں اس رقم سے جائیداد بھی خریدی گئی،جائیداد خریدنے کی تاریخوں میں تضاد نظر آرہا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ جائیداد خریداری کی تاریخ یکم مارچ2011درج ہے،اسٹام پیپرز پر تاریخ7فروری2011لکھی گئی ہے۔مخدوم علی خان نے کہاکہ مریم نواز نے ایک سے زائد جائیدادیں خریدیں۔ دوسری جائیدادیں نوازشریف نے لے کر نہیں دیں۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ حسین نواز نے وزیراعظم کو تحفے میں کتنی رقم کب دی تھی،ریکارڈ پر کچھ نہیں،کیا رقم پاکستان سے حسین کو منتقل ہوئی۔

مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ 2011میں حسین نے والد کو139ملین سے زائد رقم تحفے میں دی،حسین نے والد کو 2012میں 26ملین بطور تحفہ دیا۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے پوچھا2011سے پہلے کوئی تحفہ دیا گیا یا گوشوارے جمع کروائے گئی ۔مخدوم علی خان نے کہاکہ 2013میں 190 ملین اور 2014میں 197تحفے میں دیئے ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کاکہ بظاہر لگتا ہے رقم کو ادھر سے ادھر گھمایاجارہا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ایسا کونسا کاروبار ہے جہاں سے اتنی آمدن ہورہی ہے۔مخدوم علی خان نے کہاکہ حسین نواز کے کاروبار کی تفصیلات ان کے وکیل بتائیں گے۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں ہمیشہ باپ ہی بچوں کو تحفہ اور رقم دیتا ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق آف شور کمپنیوں سے کوئی آمدن نہیں ہوئی۔اتناپیسہ کہاں سے کمایاجاتا ہے جو پاکستان آرہا ہے۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کوئی فریق مکمل تحقیقات چاہتا ہی نہیں ،کوئی نہیں چاہتا کہ سچ سامنے آئے،فریقین خود ہی نہ چاہیں تو عدالت کیا کرسکتی ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم نے کسی تقریر میں نہیں کہا لندن فلیٹس ان کے نہیں،وزیراعظم نے انٹرویو میں کہا میں نے فیکٹری لگائی۔مخدوم علی خان نے کہاکہ نوازشریف نے کبھی نہیں کہا کہ فلیٹس ان کے ہیں،حسین نواز نے فلیٹس کی ملکیت تسلیم کی،وزیراعظم نے حسین کے موقف سے اختلاف نہیں کیا،اختلاف نہ کرنے موقف کی تائید ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم نے تقریرمیں کہا والد نے کمر باندھی اور فیکٹری لگائی،انٹرویو میں نوازشریف نے کہا دوستوں کی مدد سے جدہ فیکٹری لگائی،جاننا چاہتے ہیں کہ یہ سب کیا ہی ۔وکیل نے کہاکہ وزیراعظم کسی آف شور کمپنی کے مالک یا ڈائریکٹر نہیں،شریف فیملی نے 1993سی1996تک لندن فلیٹس نہیں خریدے۔پانامہ لیکس کیس کی سماعت آج(جمعرات)تک ملتوی کردی گئی

متعلقہ عنوان :