پانامہ کیس : شریف خاندان نے ثبوت ہونے کے باوجود بعض دستاویزات جمع نہیں کرائیں، نتائج بھگتنا پڑیں گے،سپریم کورٹ

آرٹیکل62,63 کا نفاذ کیا گیا تو سراج الحق کے علاوہ کوئی نہیں بچے گا، عدالت محتاط طریقے سے گہرائی تک پہنچ رہی ہے ہمیں فلیٹس اور پراپرٹی کے چکر میں بنیادی معاملے کو نہیں بھولنا چاہیے اصل معاملہ ایمانداری کا ہے ، ایسی مثال قائم کرنا چاہتے ہیں انصاف کے تقاضے بھی پورے ہو جائیں اور سچ بھی سامنے آجائے، دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس بخاری صاحب آپ سے سولہ سوالات کئے گئے ہیں ان میں ایک کا جواب نہیں دیا،آپ پانی سے مچھلیاں پکڑ رہے ہیں یا کچھ اور،جب تک عدالت مطمئن نہیں ہوتی ہم آپکو جانے نہیں دینگے ،پی ٹی آئی کے وکیل سے سوال ،کیس کی سماعت آج بھی جاری رہے گی

منگل 10 جنوری 2017 11:23

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔10جنوری۔2017ء) پانامہ کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ شریف خاندان کے کاغذات نامکمل ہیں اسلئے ان کے وکلا کو بہت سے معاملات کا جواب دینا ہوگا، ہمیں فلیٹس اور پراپرٹی کے چکر میں بنیادی معاملے کو نہیں بھولنا چاہیے ،اصل معاملہ ایمانداری کا ہے کہ نواز شریف قوم، پارلیمنٹ اور عدالت سے ایمانداری کے ساتھ پیش آتے ہیں کہ نہیں، کیا ان پر62،63کا نفاذ ہوتا ہے کہ نہیں؟ اگر آرٹیکل کا نفاذ کہا گیا تو سراج الحق کے علاوہ کوئی نہیں بچے گا، اس لیے عدالت محتاط طریقے سے گہرائی تک پہنچ رہی ہے کہ ہم ایک ایسی مثال قائم کرنا چاہتے ہیں کہ انصاف کے تقاضے بھی پورے ہو جائیں اور سچ بھی سامنے آجائے۔

دوران سماعت بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا شریف خاندان کے پاس ثبوت ہونے کے باوجود بعض دستاویزات عدالت میں جمع نہیں کروائی گئیں جس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

(جاری ہے)

پیر کے روز پانامہ لیکس کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے کی۔

سماعت شروع ہوئی تو تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ 15 نومبر کو قطری خط عدالت میں پیش کیا گیا لیکن وزیراعظم نے اپنے خطاب اور عدالتی جواب میں قطری خط اورسرمایہ کاری کا ذکر نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ جدہ اور دوبئی میں سرمایہ کاری کا پورا ریکارڈ موجود ہے لیکن جدہ فیکٹری کا ریکارڈ اب تک عدالت میں پیش نہیں کیا۔

جس پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کیا لازمی تھا کہ وزیر اعظم اپنے دفاع کا ہر نکتہ پارلیمنٹ میں بیان کرتے۔ جب کاروبار میاں شریف کرتے تھے تو کیا بچوں کی ذمہ داری ہے کہ منی ٹریل دیں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ جائیدادیں اگر قطری کی تھیں تو منی ٹریل شریف خاندان کیسے دے سکتا ہے۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ نواز شریف نے پیسا باہر بھجوایا۔

جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ میاں شریف کے پاس قطر کے لیے سرمایہ ہی نہیں تھا۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ شریف خاندان نے آف شور کمپنیز 1993 سے لنک کرنے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا، انہوں نے آف شور کمپنیاں 2006 سے تسلیم کی ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر جائیدادیں قطری کی ہیں تو پیسے کی منتقلی کا سوال ہی ختم ہو جاتا ہے۔

دبئی، قطر اور لندن کا تمام سرمایہ 2004 تک میاں شریف کا تھا۔نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز نے اپنے بھائی سے بھی قرض لیا ہے ،مریم نواز وزیراعظم کے زیر کفالت ہیں اور اسے ثابت کرنے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں۔ مریم نے مانا ہے کہ ان کا کوئی ذاتی گھر نہیں، انہوں نے اپنے گوشواروں میں قابل ٹیکس آمدنی صفر ظاہر کی اور 35لاکھ کی بی ایم ڈبلیو گاڑی ایک سال میں 2کروڑ 80 لاکھ کی ہوگئی۔

جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ مریم نواز کو ملنے والے تحائف کا ذکر ٹیکس گوشواروں میں موجود ہے، نعیم بخاری نے کہا کہ جس کی آمدنی صفر ہو وہ اپنی بیوی کی کفالت کیسے کر سکتا ہے، کیپٹن صفدر نے 2010سے 2013تک صفر ٹیکس جمع کروایا ہے، جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ آمدن اور قابل ٹیکس آمدن میں فرق ہوتا ہے نعیم بخاری نے کہا کہ نامعلوم ذرائع آمدن جانے بغیر کیس کو آگے نہیں چلایاجا سکتا، شریف خاندان کے منیجر مالیات نے تمام ریکارڈ وکلا کو دے دیا تھا، نواز شریف کو حسین نواز کے 81کروڑ روپے کے تحفے دیئے، اور ان پر نواز شریف نے ٹیکس ادا نہیں کیا، حسین نواز کا ذرائع آمدن کیا ہے جو انہوں نواز شریف کو تحائف دیئے ہیں، کیپٹن صفدر 2013سے پہلے این ٹی این نمبر نہیں رکھتے تھے، جسٹس گلزار احمد نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ والد اور بیٹے میں تحائف کے تبادلے میں کوئی قباحت نہیں ہے،۔

جسٹس اعجازافضل نے ریمارکس دیئے کہ حدیبیہ ملز کے التوفیق کیس میں مریم اور حسین فریق نہیں تھے، جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ 1997 میں مریم نواز اور حسین نواز حدیبیہ پیپرز ملز میں ڈائریکٹر تھے۔ مریم نواز نے اپنے والد سے 86 کروڑ روپے بطور تحفہ لئے، اس کے علاوہ مریم نواز نے اپنے بھائی سے بھی قرضہ لیا ہوا ہے،۔نعیم بخاری نے عدالت کے روبرو اسحاق ڈار کا منی لانڈرنگ سے متعلق اعترافی بیان پڑھ کر سنایا۔

عدالتی استفسار پر نعیم بخاری نے کہا کہ یہ اعترافی بیان لاہور کے درجہ اول مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ ہوا لیکن بعد میں اسحاق ڈار نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ یہ بیان گن پوائنٹ پر لیا گیا تھا، اعترافی بیان کے بعد ایک ریفرنس دائر ہوا جس کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا، ہائی کورٹ کے ریفری جج نے وہ ریفرنس خارج کیا، ریفری جج نے 11 مارچ 2014 کو فیصلہ سنایا کہ مزید تحقیقات کی ضرورت نہیں، جس پر جسٹس اعجازافضل خان نے استفسار کیا کہ نیب نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کیوں نہیں کی، آپ کو اعترافی بیان کی قانونی حیثیت بتانا ہوگی۔

نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کو ریفرنس کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنی تھی جو انہوں نے نہیں کی چیئرمین نیب نے اپنے ڈیوٹی انجام نہیں دی ہے۔جسٹس عظمت سعید نے نعیم بخاری سے کہا کہ آپ کو اسحاق ڈار کے بیان کی قانونی حیثیت بتانا ہو گی۔ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس میں کہا کہ اگر ٹرانزیکشن بینک کے ذریعے ہو تو کوئی اعتراض نہیں بنتا۔

اس پر نعیم بخاری نے کہا کہ کیا پتہ ہنڈی کے ذریعے رقم بھیجی گئی ہو اور پھر بنک کے ذریعے واپس آئی ہو جس پر جسٹس عظمت سعید نے نعیم بخاری سے سوال کیا کہ بخاری صاحب آپ سے سولہ سوالات کئے گئے ہیں ان میں ایک کا جواب نہیں دیا۔ آپ پانی سے مچھلیاں پکڑ رہے ہیں یا کچھ اور۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تحقیقاتی ادارے نے سارے معاملے کو نہیں دیکھا آپ کو کیس ختم کرنے کی جلدی ہے کیا؟ عدالت جب تک مطمئن نہیں ہو گی تب تک ہم آپ کو جانے نہیں دیں گے۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ بخاری صاحبت آپ میڈیا کو نہیں ہمیں عدالت میں بیٹھے ججوں کو مطمئن کریں ۔ نعیم بخاری نے کہا کہ وہ اپنے دلائل آج ہی مکمل کریں گے۔ تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منی لانڈرنگ کے لئے جعلی بنک اکاؤنٹ کھلوائے گئے ۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شریف خاندان نے اسحاق ڈار کے ذریعے منی لانڈرنگ کی ہے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ ریفرنس جج کے پاس صرف معاملہ دوبارہ تحقیقات کا تھا دونوں ججز نے نیب کے ریفرنس خارج کر دیئے تھے ۔

جسٹس کھوسہ نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ ریفرنس خارج ہونے کی وجہ بتائیں ۔ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ ریفرنس ٹیکسز بنیادوں پر خارج کئے گئے ہیں جسٹس کھوسہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا تھا کہ موثر تحقیقات نہیں ہوئیں لگتا ہے تحقیقات میں جھول تھا۔ جب کہ الزامات میں نہیں۔ نعیم بخاری نے کہا کہ اسحاق ڈار کو بیرون ملک ہونے کی وجہ سے تحقیقات میں شامل نہیں کیا گیا۔

جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ملزم اسحاق ڈار پر تحقیقات میں شامل نہیں تھا ممکن ہے اس لئے تحقیقاتی رپورٹ مسترد ہوئی ہو۔ نعیم بخاری نے کہا کہ نواز شریف 26نومبر2007ء کو جلا وطنی سے واپس وطن آئے اس پر جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ملزم کی وطن واپسی پر جج نے کیسے کہہ دیا کہ تحقیقات کی ضرورت نہیں ہے اور چیئر مین نیب نے جج کے فیصلے کے خلاف اپیل بھی نہیں کی اس پر نعیم بخاری نے کہا کہ چیئر مین نیب کو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا حکم دیا جائے جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اپیلٹ کورٹ اپیل دائر کرنے کا حکم کیسے دے سکتی ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جس جرم کے تحت آپ اسحاق ڈار کی نا اہلی چاہتے ہیں وہ ان پر ثابت نہیں ہو رہے۔ اپیل دائر ہو بھی جائے تو نا اہلی کا سوال فیصلے کے بعد اٹھے گا۔ بخاری صاحبت لگتا ہے آپ قانونی سوالات فلڈ کر رہے ہیں۔ جب آپ سے سوال کیا جاتا ہے تو آپ پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں۔ نعیم بخاری نے کہا کہ نصیر احمد بھٹو اور اٹارنی جنرل محمد محمود خان نے حدیبہ پیپر میں شریف خاندان سے رعایت برتی۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ جو بات کر رہے ہیں وہ اس کیس سے غیر متعلقہ ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مقدمہ مناسب تحقیقات نہ ہونے پر بند کر دیا گیا اگر اس کیس میں کسی کو چارج نہیں کیا گیا تو یہ کیس کیسے دوبارہ کھولنا چاہیئے اس میں بخاری نے کہا کہ فیصلے کے وقت نواز شریف وزیراعظم تھے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نیب کو دوبارہ تحقیقات کا حکم بھی دے سکتے ہیں ۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ چیئر مین نیب کو اپیل دائر نہ کرنے کی وضاحت کرنی ہو گی۔ جسٹس اعجاز نے استفسار کیا کہ حسین نواز کے بینیفیشل مالک ہونے کی دستاویزات موجود ہیں اس پر بخاری نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ اور قطری خط کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ نوٹری پبلک نے صرف کاپی کی حد تک تصدیق کی ہے۔ نعیم بخاری نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق سات نومبر کو کی گئی۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ دستخط کا معاملہ فریقین کے درمیان تنازعہ نہیں ۔نعیم بخاری نے کہا کہ ان کا اختلاف سے نہیں بلکہ اس کی تحریر سے ہے۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ کس بنیاد پر بول رہے ہیں کہ مریم نواز ہی بینیفشری مالک ہیں۔ نعیم بخاری نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ اصل نہیں ہے بلکہ مقدمے میں سوالات کے بعد تیار کی گء ہے۔ قطری خط کو اگر عدالت مسترد کرتی ہے تو حسین نواز کی جائیداد کی ملکیت کا دعویٰ ختم ہو جائے گا۔

اس جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ فی الحال قطری خط کو مسترد نہیں کر سکتے۔ ہم نے بیل کو سینگوں سے پکڑنا ہے۔ نعیم بخاری نے کہا کہ قطری خط کا موقف وزیراعظم کے بیان سے مختلف ہے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ قطری سرمایہ کاری اور ٹرسٹ ڈیڈ کا حوالہ کسی انٹرویو میں نہیں دیا گیا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ شریف خاندان کے کاغذات نامکمل ہیں ان کے وکلاء کو بہت سے معاملات کا جواب دینا ہو گا۔

آف شور کمپنیوں کا پیپر پر سرٹفیکیٹ جس کے پاس ہو وہی مالک ہوتا ہے۔ اگر یہ سرٹیفیکیٹ حسین نواز کے پاس ہے تو وہ بطور مالک ٹرسٹ ڈیڈ کر سکتا ہے۔ قطری خط کو نکال دیں تو خلا پیدا ہوتا ہے۔ شریف خاندان نے بہت سے کاغذات جمع کروائے اگر ان کے وکلاء تمام دستاویزات جمع کروا دیتے تو آپ کو بات کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ جس فریق نے جو دستاویزات جمع کروائی ہیں اس کا جواب دے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک سفر ہے جو سچ کی تلاش کے لئے ہے۔ ایک دن آئے گا جب پاکستان کے عوام سچ جان جائیں گے۔ کیس کی سماعت آج منگل تک کے لئے ملتوی کر دی گئی ۔ نعیم بخاری دلائل جاری رکھیں گے۔ دریں اثناء چیئر مین پی ٹی آئی عمران خان نے خبر رساں ادارے سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اچھی بات ہے کہ کوئی نہ بچے اور اچھے لوگ اوپر آئیں جتنی یہ لوگ کرپشن کرتے ہیں ان کی پکڑ ہونی چاہیئے۔