ایڈیشنل سیشن جج کے گھر میں تشدد کا نشانہ بننے والی طیبہ صلح کے بعد پر اسرار طور پر غائب ہوگئی ،میڈیکل بورڈبچی کی راہ تکتا رہا،پولیس بھی تلاش کرتی رہی

خود کو متاثرہ بچی کے و رثاء ظاہر کرنیوالی دو خواتین سمیت تینوں افراد کے موبائل فون مسلسل بند پمز ہسپتال میں کم سن ملازمہ کے والدین ہونے کے دو مزید دعویدار سامنے آگئے،انکے ڈی این اے نمونے بھی لے لئے گئے،معاملہ شکوک و شبہات کا شکار اسلام آباد سیف سٹی کے دو ہزار کیمرے بھی بچی کی نشاندہی سے قاصر آئی جی اسلام آباد پولیس نے اعلی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی

ہفتہ 7 جنوری 2017 12:18

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔7جنوری۔2017ء) ایڈیشنل سیشن جج کے گھر میں تشدد کا نشانہ بننے والی کم سن ملازمہ طیبہ کے ڈی این اے کیلئے سپریم کورٹ کی جانب سے ازخود نوٹس پر بنایا گیا میڈیکل بورڈبچی کی راہ تکتا رہا جبکہ پولیس طیبہ کو شہر اقتدار میں تلاش کرتی رہی۔تاہم پمز ہسپتال میں کم سن ملازمہ کے والدین ہونے کے دو مزید دعویدار سامنے آگئے جن کے ڈی این اے نمونے بھی لے لئے گئے ہیں۔

صلح کے بعدسے متاثرہ بچی تاحال پر اسرار طور پر غائب ہے جبکہ اسلام آباد سیف سٹی کے دو ہزار کیمرے بھی بچی کی نشاندہی سے قاصر ہیں،، خود کو متاثرہ بچی کے و رثاء ظاہر کرنے والی دو خواتین سمیت تینوں افراد کے موبائل فون بھی مسلسل بند ملنے پر معاملہ شکوک و شبہات کا شکار ہو گیا ہے ۔

(جاری ہے)

آئی جی اسلام آباد پولیس نے واقعہ کی تحقیقات کیلئے اعلی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔

ذرائع کے مطابق طیبہ تشدد کیس کی الجھی گتھیاں سلجھانے کے لئے ملزمان ،بچی کے دعویدار والدین اور متاثرہ بچی سمیت تمام فریقین کی تفتیش کے لئے ڈی آئی جی آپریشن اسلام آباد کی سربراہی میں سپیشل انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دے دی گئی۔ سپیشل انوسٹی گیشن ٹیم تین روز کے اندر سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائے گی۔ جوڈیشل افسر کے گھر میں کمسن ملازمہ پر تشدد کے کیس میں سپریم کورٹ کے حکم کے پیش نظر آئی جی اسلام آباد نے اعلی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے جس کی سربراہی ڈی آئی جی آپریشن کریں گے جبکہ ٹیم کے ممبران میں ایس ایس پی انوسٹی گیشن کیپٹن ریئٹائرڈ الیاس ،اے ایس پی صدر، ڈی ایس پی بشیر نون،ا یس ایچ اوتھانہ آئی نائن خالد اعوان اور تفتیشی افسر اے ایس آئی شکیل بٹ شامل ہیں۔

ٹیم مقدمے کا ریکارڈ اورصلح نامے کی کاپی سمیت دیگر تحقیقات کا جائزہ لے گی۔ ٹیم تمام فریقین، والدین ہونے کے دعویدار ، متاثرہ بچی اور ملوث ملزمان کے بیانات قلمبند کرے گی۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے تحقیقاتی کمیٹی بنا کرتین دن میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے جبکہ لا پتہ بچی کو بھی پیش کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ بچی کے والدین اب ہم ہیں بچی کو عدالت میں پیش کیا جائے۔

وفاقی پولیس اور ضلعی عدالت کی جانب سے متاثرہ بچی کو بغیر کسی ثبوت، ڈی این اے ٹیسٹ کے ورثاء کے حوالے کر دیا تھا۔ خود کو بچی کا والد، والدہ اور پھوپھی ظاہر کرنے والے تینوں افراد منظر عام سے غائب ہو چکے ہیں جبکہ تینوں افراد کے موبائل فون نمبرز بند ہونے کی وجہ سے معاملہ مشکوک ہو گیا ہے۔ دوسری جانب ایڈیشنل سیشن جج کے گھر مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کم سن ملازمہ طیبہ کی ماں ہونے کا دعویٰ کرنے والی 2 خواتین سامنے آ گئیں ہیں۔

سپریم کورٹ کے حکم پر طیبہ کی ماں ہونے کی دعویدار خواتین ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے پمز اسپتال پہنچیں، پمز اسپتال کے ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر الطاف حسین نے طیبہ کیس کے حوالے سے کہا ہے کہ پولیس نے موقف پیش کیا ہے کہ بچی مل نہیں رہی جس کی وجہ سے ڈی این اے ٹیسٹ سیمپلنگ ابھی ممکن ہو سکتی ۔ ہماری طرف سے تمام انتظامات مکمل ہیں،میڈیکل بورڈ سب رپورٹس فراہم کریگا ۔

دونوں خواتین کا پمز اسپتال میں ڈی این اے ٹیسٹ ہو چکا ہے،ڈی این اے سے ہی اصل وراث کی شناخت ہوگی ۔ تاہم تشدد کا شکار ہونے والی کم سن طیبہ منظر عام سے غائب ہے جس کی وجہ سے نہ تو بچی کو عدالت میں پیش کیا گیا اور نہ ہی اس کی میڈیکل رپورٹ پیش کی گئی جبکہ پر اسرار طور پر غائب ہونے کے باعث بچی کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے نمونے بھی نہ لئے جا سکے۔

بچی کی دعویدار د و خواتین میں شامل فرازنہ اور اسکے شوہر ظفر کا تعلق فیصل آبادسے جبکہ دوسری خاتون کوثر اور اسکے خاوند کا تعلق کمالیہ سے ہے۔ واضح رہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج کے گھر میں ملازمت کرنے والی بچی طیبہ پرمبینہ تشدد کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے جج اور اہلیہ کے خلاف مقدمہ درج کر نے کا حکم دیا بعد ازاں تشدد کا شکار ہونے والی کمسن بچی طیبہ کے والدین نے نہ صرف اپنا کیس واپس لے لیا بلکہ راضی نامہ بھی کرلیا۔

جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے حاضر سروس ایڈیشنل سیشن جج خرم علی خان کے گھر کام کرنے والی کمسن ملازمہ پر تشدد کے واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے بچی پر تشدد اور اس کے بعد فریقین کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے طیبہ کیس کی سماعت کرتے ہوئے وفاقی پولیس کو تین دن کے اندر اپنی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔