پاناما کیس : سپریم کورٹ میں وزیر اعظم کے حکومتی عہدوں کی تفصیلات جمع

زیر کفالت کو واضح کئے بغیر دلائل ہوا میں قلعہ ہیں، سپریم کورٹ ایسا مقدمہ عدالت میں پہلے کبھی نہیں آیا، کیس کے کسی بھی پہلو کو نظرانداز نہیں کریں گے اور ہر فریق کو اس کی تسلی کے مطابق وقت دیا جائے گا،جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس قطر شہزادے کے خط کو کارروائی سے نکال دیا جائے تو ساری جائیداد شریف فیملی کی ہے، ہم اسحاق ڈار،کیپٹن صفدر اور وزیر اعظم کی نااہلی چاہتے ہیں ،نعیم بخاری کے دلائل آپ بلند وبانگ بیانات دے رہے، آپ کو ان کے ثبوت بھی دینا ہوں گے،وزیر اعظم کے بچوں کا انصار خط پر ہے ،خط کو کیسے نکال پھینک دیں ،اگر نکال دیا تو بچوں کے موقف کی حیثیت کیا ہوگی،عدالتی ریمارکس انٹرویویا اخباری خبر پر کسی کو ہم پھانسی لگادیں تو آپ کا موکل بھی نہیں بچے گا،جسٹس عظمت مزید سماعت آج پھر ہوگی

جمعہ 6 جنوری 2017 10:45

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔6جنوری۔2017ء) پاناما کیس میں وزیر اعظم نواز شریف کے وکلا نے سپریم کورٹ کے رو برو تحریری جواب جمع کرادیئے ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ایسا مقدمہ عدالت میں پہلے کبھی نہیں آیا، کیس کے کسی بھی پہلو کو نظرانداز نہیں کریں گے اور ہر فریق کو اس کی تسلی کے مطابق وقت دیا جائے گا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار احمد نے پاناما کیس کی سماعت کی، سماعت کے آغاز پر وزیر اعظم کے وکلا ء کی جانب سے عدالتی سوالوں کا جواب جمع کرادیا۔

جس میں بتایا گیا کہ نوازشریف 25 اپریل 1981 سے 28 فروری 1985 تک صوبائی وزیر خزانہ پنجاب رہے ، 19 اپریل 1985 سے 30 مئی 1988 تک وزیر اعلیٰ پنجاب جبکہ 31 مئی 1988 سے 2 دسمبر 1988 تک نگران وزیر اعلیٰ پنجاب رہے، نوازشریف6 نومبر 1990 سے 18 اپریل 1993 تک پہلی بار پاکستان کے وزیر اعظم بنے،19 اکتوبر 1993 تا 5 نومبر 1996 اپوزیشن لیڈر کی ذمہ داریاں سرانجام دیں، 17 فروری 1997 سے 12 اکتوبر 1999 تک دوسری بار وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر فائزرہے، 12 اکتوبر1999 کے مارشل لاء کے بعد نوازشریف کو ہٹایا گیا اور 10 دسمبر 1999 کو انہیں جلا وطن کیا گیا، نواز شریف 26 نومبر 2007 کو وطن واپس آئے ،نوازشریف تیسری مرتبہ 5 جون 2013 کو وزیراعظم بنے اور تاحال عہدے پر فائز ہیں۔

(جاری ہے)

سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا ہے کہ سرمایہ کاری کے بارے میں والد کچھ اور اولاد کچھ اور کہتی رہی، قطر میں سرمایہ کاری سے لگتا ہے نئی جائیدادیں خریدی گئیں، قطری خط مکمل طور پر فراڈ ہے، 2016 میں قطری شہزادہ 1980 کی یاد تازہ کر رہا ہے، وزیراعظم کے کسی بیان میں قطری خط کا کوئی ذکر نہیں، ساری جائیداد دادا سے ایک پوتے کو منتقل نہیں ہو سکتی۔

جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی بات نوٹ کرلی ہے کہ رقم منتقلی کا ریکارڈ نہیں لیکن آپ کویہ بھی بتانا ہوگا کہ سرمایہ کاری قطر اور جائیداد لندن میں کیسی بنی۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ثابت کونا ہو گا کہ ایسا لگتا ہے بارہ ملین درہم دو عشروں تک خرچ نہیں ہوئے، گلف اسٹیل کی فروخت کی رقم وزیر اعظم کے بینک اکاوٴنٹ میں رہی، اگر ایسا نہیں ہوا تو ہمیں مشکل ہو گی۔

جسٹس اعجاز افضل نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ قطری شہزادے کا بیان سنی سنائی باتیں ہیں تو اسے بطور ثبوت کیوں استعمال کر رہے ہیں، جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ قطری شہزادے کا خط ہماری نہیں وزیر اعظم کی پیش کردہ دستاویز ہے، خط کو کارروائی سے نکال پھینکا جائے۔ نعیم بخاری کی استدعا پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس خط کو کیسے نکال پھینکیں کیونکہ وزیر اعظم کے بچوں کا انحصار اس پر ہے، یہ خط وزیراعظم کے بچوں کی تائید میں لکھا گیا ہے، اگر خط نکال دیا تو بچوں کے موقف کی حیثیت کیاہوگی، نعیم بخاری نے کہا کہ قطری شہزادوں کو نکال دیں تو ساری جائیداد شریف فیملی کی ہے، فلیٹ خریدتے وقت فلیٹ شریف فیملی کے تھے۔

بچوں کی جانب سے دیا گیا موقف وزیر اعظم کے بیان کے متضاد ہے۔ تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ ہم اسحاق ڈار، کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اور وزیر اعظم کی نااہلی چاہتے ہیں ، وزیراعظم کے بچوں کو صرف اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے فریق بنایا ہے۔ ججز نے ریمارکس دیئے کہ زیرکفالت ہونے کو واضح کیے بغیردلائل ہوا میں قلعہ بنانے کے مترادف ہے، آپ وزیراعظم کو نااہل کرانا چاہتے ہیں یا بچوں کو بھی، آپ اپنے دلائل کی سمت کا تعین کریں۔

سماعت کے دوران عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل سے کہا کہ آپ بلند وبانگ بیانات دے رہے، آپ کو ان کے ثبوت بھی دینا ہوں گے، قطر کے شہزادے کے خط کو اٹھا کر پھینکنے کی استدعا پر عدالت نے کہا کہ اگر خط غلط ہے تو اس پر بحث کیوں کر رہے ہیں، عدالت نے کہا کہ شریف خاندان کا کوئی بھی فرد اپنے انٹرویو یا اخباری بیان کی تردید کر تا ہے تو اس کو عدالت میں بلا یا جاسکتا ہے۔

نعیم بخاری نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف کے کسی بیان میں قطرکے شہزادے کے خط کا کوئی ذکر نہیں اور نہ ہی دبئی سے منتقل کی جانے والی کسی رقم کا کوئی ذکرہے۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ خط میں یہ نہیں لکھا کہ آف شور کمپنیاں الثانی خاندان کی ملکیت ہیں۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس ددیئے کہ یہ بتانا ہو گا کہ قطر میں سرمایہ کاری اور لندن میں جائیداد کیسے بنی۔

نعیم بخاری کی اس دلیل پر کہ ساری جائیداد دادا سے ایک پوتے کو منتقل نہیں ہو سکتی، جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ ہم قطرکے شہزادے کے خط کا جائزہ لے رہے ہیں کسی کے قانونی وارث ہونے کا نہیں۔پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ جدہ فیکٹری کا کوئی ریکارڈ نہیں اور قطری خط مکمل طور پر فراڈ ہے، جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ خط بظاہر ایک شخص کی یاداشتوں پر مشتمل تحریر لگتا ہے، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر قطرکے شہزادے کا بیان سنی سنائی باتیں ہیں تو آپ اس کو بطور ثبوت کیوں استعمال کر رہے ہیں۔

نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ قطری شہزادے کا خط ہمارا نہیں وزیر اعظم کی پیش کردہ دستاویز ہے، قطری شہزادے کے خط کو نظر انداز کردیا جائے تو پتا لگ جائیگا کہ فلیٹس شریف خاندان نے خریدے۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں ؟ آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے؟ آپ کو دستاویزی ثبوت دکھانا ہوں گے۔ اپنے سوالات سے حقائق جاننے کی کوشش کر رہے ہیں،مزید حقیقت جاننے کے لئے دوسرے فریق سے بھی سوالات کریں گے۔

نعیم بخاری نے بیگم کلثوم نواز کے سال 2000میں دیے گئے انٹرویو کا حوالہ دیا تو جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اخباری خبروں کا بھی قانون کے مطابق جائزہ لیں گے۔سماعت میں جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر پیش کیے گئے اخباری انٹرویو کی تردید آئے تو متعلقہ صحافی کو بلایا جاتا ہے،اگرکوئی اپنے انٹرویو کی تردید کرے تو اس کو عدالت میں بلایا جاسکتاہے۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر انٹرویویا اخباری خبر پر کسی کو ہم پھانسی لگادیں تو آپ کا موکل بھی نہیں بچے گا، ہمیں 500سال قبل والے ٹرائل پر نہ لے جائیں۔مقدمے کی مزید سماعت آج(جمعہ کو) صبح ساڑھے نو بجے ہوگی۔