سپریم کورٹ، گھریلو ملازمہ تشد د کیس پرراضی نامے کے بعد از خود نوٹس

دوبارہ تحقیقات کے لئے وفاقی پولیس کے سینیئر افسران پر مشتمل سپیشل انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل،نوٹیفیکیشن آج جاری کیا جائے گا ضلعی انتظامیہ اسلام آباد نے نیا میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی ہدایت بھی کردی

جمعرات 5 جنوری 2017 11:09

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔5جنوری۔2017ء) سپریم کورٹ نے گھریلو ملازمہ تشد د کیس پرراضی نامے کے بعد از خود نوٹس لے لیا،دوبارہ تحقیقات کے لئے وفاقی پولیس کے سینیئر افسران پر مشتمل سپیشل انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دے دی گئی، کم سن بچی کے جسم پر گرم راڈ سے جلانے کے نشانات کی تصدیق کے بعد ضلعی انتظامیہ اسلام آباد نے نیا میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی ہدایت بھی کر دی،سپیشل انوسٹی گیشن ٹیم کے ممبران کے نام تاحال خفیہ رکھے گئے ہیں جس کا نوٹیفیکیشن آج جاری کیا جائے گا جبکہ ایڈیشنل سیشن جج کی اہلیہ کو شامل تفتیش کر لیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان اور اسکے اہلے خانہ کی جانب سے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کیس کے راضی نامہ پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے رجسٹرار ہائی کورٹ سے 24گھنٹے کے اندر اندر جواب طلب کر لیا، وفاقی پولیس نے بھی سینیئر افسران پر مشتمل سپیشل انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دے دی ، ٹیم کے ممبران کے نام اور تعداد آج آئی جی اسلام آباد کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن میں بتائی جائے گی۔

(جاری ہے)

جبکہ ضلعی انتظامیہ اسلام آباد نے پمز انتظامیہ کو نیا میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم جاری کیا جس پر پمز انتظامیہ نے 4ڈاکٹروں پر مشتمل ٹیم بنا دی۔ میڈیکل بورڈ میں تین مرد اور ایک خاتون ڈاکٹر شامل ہیں،بورڈ میں پمزاسپتال کے برن سرجن، پلاسٹک سرجن، جنرل سرجن اور ماہرنفسیات شامل کیے گئے ہیں جن میں ڈاکٹر طارق اقبال، ڈاکٹرحمیدالدین، ڈاکٹر ایس ایچ وقار، ڈاکٹر عاصمہ شامل ہیں۔

سینٹ میں سینیٹر سحر کامران نے توجہ دلاؤ نوٹس جمع کراتے ہوئے کہا ہے کہ حاضر سروس جج کی جانب سے کم سن بچی کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا جو انتہائی تشویشناک بات ہے، معاملے کی مکمل چھان بین ہونی چاہیئے۔کرائسزسنٹرکی رپورٹ کے مطابق طیبہ کے جسم پرگرم راڈسے تشددکے نشانات پائے گئے ہیں، پولیس ذرائع کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج کی اہلیہ کو شامل تفتیش کر لیا گیا، کم سن طیبہ نے جو بیان انوسٹی گیشن آفیسر، ایس ایچ او تھانہ آئی نائن اور میڈیکل ڈاکٹروں کے سامنے اپنا جو بیان دیا تھا کہ وہ سیڑھیوں سے گری اور اسکے ہاتھ جلتے چولہے پر آگرے درست نہیں لگتا کیوں کہ قبل ازیں بچی کیس کے انوسٹی گیشن آفیسر کو بتا چکی تھی کہ جج کے گھریلو لوگوں میں سے کسی نے کہا کہ اگر کسی کا نام لو گی تو پولیس مارے گی۔

واضح رہے کہ ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان اور اسکے اہل خانہ کی جانب سے مبینہ تشدد کی شکار لڑکی کے والد نے اپنے بیان حلفی میں کہا تھا کہ انہوں نے کسی دباؤکے بغیر راضی نامہ کیا ہے اور جج کو معاف کر دیا ہے۔”مقدمے میں جج کو فی سبیل اللہ معاف کر دیا ہے “۔ جج کو بری یا ضمانت دینے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر کرائسزسنٹرکی رپورٹ اور سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے بعد کہانی نے نیا موڑ اختیار کر لیا ہے ، آئی جی اسلام آباد کی جانب سے ایس ایچ او تھانہ آئی نائن کے خط کے جواب میں ایک سپیشل انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے جبکہ سینٹ مین بھی توجہ دلاؤ نوٹس جمع کرا دیا گیا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ کم سن گھریلو ملازمہ طیبہ اسلام آبادمیں ایک حاضر سروس جج کے گھر ملازمہ تھی جہاں اسے مبینہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس انور خان کاسی نے 29دسمبر کو ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان کے خلاف تھانہ آئی نائن پولیس کو مقدمہ درج کر نے کی ہدایت کی تھی جبکہ ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان نے اپنے جواب میں ان تمام الزامات کو مسترد کر رکھا ہے