پلی بارگین کا مقصد عوام کی لوٹی ہوئی رقم کی واپسی کے ساتھ ساتھ لٹیروں کی معافی نہیں،قمرزمان چوہدری

پلی بارگین ایک سزا ہے جس میں ملزم صرف جیل نہیں جاتا، سزا کے تمام لوازمات اس پر لاگو ہوتے ہیں کرپشن میں ملوث کوئی سرکاری ملازم پلی بارگین کرتا ہے تو اسے سرکاری ملازمت سے ڈسمس کردیا جاتا ہے اور وہ ساری عمر سرکاری ملازمت نہیں کرسکتا اگر کوئی منتخب عوامی نمائندہ کرپشن کے الزام میں نیب سے پلی بارگین کرتا ہے تو وہ دس سال کیلئے نااہل ہوجاتا ہے اور آئندہ کوئی الیکشن نہیں لڑ سکتا، چیئرمین نیب کی میڈیا سے گفتگو

منگل 27 دسمبر 2016 11:26

اسلام آباد(آ ن لائن) قومی احتساب بیورو(نیب)کے چیئرمین نے کہا ہے کہ نیب ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کیلئے پر عزم ہے پلی بارگین کا مقصد عوام کی لوٹی ہوئی رقم کی واپسی کے ساتھ ساتھ لٹیروں کی معافی نہیں ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا،انہوں نے کہا کہ پلی بارگین ایک سزا ہے جس میں ملزم صرف جیل نہیں جاتا سزا کے تمام لوازمات اس پر لاگو ہوتے ہیں۔

اگر کرپشن میں ملوث کوئی سرکاری ملازم پلی بارگین کرتا ہے تو اسے سرکاری ملازمت سے ڈسمس کردیا جاتا ہے اور وہ ساری عمر سرکاری ملازمت نہیں کرسکتا اگر کوئی منتخب عوامی نمائندہ کرپشن کے الزام میں نیب سے پلی بارگین کرتا ہے تو وہ دس سال کیلئے نااہل ہوجاتا ہے اور آئندہ کوئی الیکشن نہیں لڑ سکتا اور کوئی کاروباری شخص پلی بارگین کرتا ہے تو وہ بینک سے کوئی لین دین نہیں کرسکتا اور وہ کوئی اکاؤنٹ نہیں کھلوا سکتا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ جہاں تک بلوچستان کے سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی اور مشیر خزانہ خالد لانگو کے کیسز کا تعلق ہے ۔انہوں نے انکوائری کے دوران رقم کی رضاکارانہ واپسی کی درخواست دی رضاکارانہ واپسی سکیم کے ذریعے کسی کو سزا نہیں ملتی نیب نے ان کی رضاکارانہ واپسی کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔ تاہم اگلے مرحلے میں ان کی پلی بارگین کی درخواست منظور کی گئی۔

چیئرمین نیب کو قانون کے تحت پلی بارگین کی درخواست منظور کرنے کا اختیار ہے تاہم اس کا حتمی فیصلہ متعلقہ عدالت کرتی ہے ۔اس کیس میں مشیر خزانہ اور دوسرے ملزموں کے خلاف تحقیقات کے حتمی مرحلے میں ہیں۔ان کے خلاف احتساب عدالت میں مقدمہ چلے گا ان کے اکاؤنٹس منجمند ہیں انہوں نے کہا کہ مشتاق رئیسانی کے مکان سے65 کروڑ 32 لاکھ روپے نقد اور3 کلو سونا ملا تھا جبکہ کوئٹہ میں 6 کروڑ روپے مالیت کا مکان اور ڈی ایچ اے کراچی میں7 کروڑ روپے مالیت کی جائیداد نیب نے قبضہ میں لی ہے جبکہ خالد لانگو کے فرنٹ مین سہیل مجید شاہ سے نیب نے ایک ارب روپے کی ریکوری کی ہے ،قمر زمان چوہدری نے کہا کہ نیب بلوچستان کے مستعداور نوجوان افسروں نے اربوں روپے کی لوٹ مار کا کیسے پتہ چلایا اور کیسے قومی خزانہ لوٹا یہ ایک دلچسپ داستان ہے صوبے کے726 بلدیاتی اداروں کو شہری سہولتوں کی فراہمی کیلئے 2015-16ء کے بجٹ میں6 ارب روپے دیئے گئے یہ رقم ایک میٹروپولیٹن کارپوریشن 5 میونسپل کارپوریشنز53 میونسپل کمیٹیوں اور 635 یونین کونسلوں کیلئے مختص ہوئی تھی لیکن مشیر خزانہ نے ترقیاتی بجٹ میں بلدیاتی اداروں کیلئے مختص6 ارب روپے کی ساری رقم میونسپل کمیٹی خالق آباد اور میونسپل کمیٹی مچھ کیلئے مختص کردی اور ابتدا میں 2 ارب31 کروڑ روپے دونوں بلدیاتی اداروں کیلئے منتقل کئے گئے اس مقصد کیلئے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی اور ایڈمنسٹریٹر سلیم شاہ کو استعمال کیا گیا۔

2 ارب 31 کروڑ روپے ایڈمنسٹریٹر / چیف آفیسر سلیم شاہ کے ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل کئے گئے اسی طرح محکمہ بلدیات کو مکمل طور پر بائی پاس کیا گیا دو میونسپل کمیٹیوں کیلئے2 ارب31 کروڑ روپے مختص کئے گئے اس میں سے 2 ارب 24 کروڑ روپے انہوں نے خورد برد کرلئے اور یہ رقم چار افراد میں تقسیم کردی گئی جس میں مشیر خزانہ کا فرنٹ مین سہیل مجید شاہ اس کا بھائی ایڈمنسٹریٹر/ چیف آفیسر مچھ وخالق آباد،میونسپلز اور سیکرٹری خزانہ شامل تھے نیب کو قومی خزانے کی لوٹ مار کی سب سے پہلی اطلاع ایک معتبر قومی انٹیلی جنس ادارے کے ذریعے ملی جس پر نیب نے اپنے ذرائع سے معلومات حاصل کیں اور ملزموں کی مکمل نگرانی کی گئی ۔

نیب نے گرفتار کیا تو اس نے تصدیق کردی کہ رقم 10 بے نامی اور دیگر اکاؤنٹس میں منتقل کی گئی سلیم شاہ نے لوٹی گئی رقم،ڈی ایچ اے کراچی اور دیگر 11 جائیدادیں سرنڈر کردیں جن کی مالیت ایک ارب روپے سے زیادہ ہے۔ سلیم شاہ کے ذریعے ہی فرنٹ مین سہیل مجید شاہ کو رقوم ٹرانسفر ہوئیں اور ہر مرتبہ سیکرٹری خزانہ کمیشن اور غیر ملکی کرنسی میں اپنا شیئر وصول کرتے رہے فرنٹ میں سہیل مجید شاہ مشیر خزانہ کیلئے جائیداد کی خریداری کرتے رہے اس کے بدلے میں انہیں ضلع قلات میں تمام سڑکوں اور ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر کے ٹھیکے دیئے گئے ۔

ایکسیئن(بی اینڈ آر)طارق علی کو جب نیب نے پکڑا تو اس نے انکشاف کیا کہ قلات ضلع کیلئے مشیر خزانہ نے ان کی بھرتی کی تھی اور فرنٹ مین کے ذریعے بھاری کک بیکس وصول کرتے رہے مختلف ٹھیکوں میں ایک کروڑ روپے کا کمیشن وصول کیا میونسپیلٹی خالق آباد کے اکاؤنٹنٹ ندیم اقبال نے نیب میں گرفتاری کے بعد اعتراف کیا کہ انہوں نے بلدیہ کے اکاؤنٹ سے30 لاکھ روپے کا خورد برد کیا ۔

ندیم اقبال فرنٹ مین سہیل شاہ وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب کے موجودہ دور میں رضاکارانہ واپسی اور پلی بارگین کے ذریعے مجموعی طور پر بدعنوان عناصر سے لوٹے گئے 45 ارب37 کروڑ روپے وصول کئے گئے ہیں نیب کی طرف سے سیکرٹری خزانہ اور مشیر خزانہ کے فرنٹ مین سے پلی بارگین کی 2 ارب روپے کی رقم سٹیٹ بنک کے ذریعے واپس صوبائی خزانے کو لوٹا دی گئی ہے اور اب ملزموں کے خلاف مقدمے عدالتوں میں چلیں گے۔