آئی ایس آئی تک عوام کی رسائی ہونی چاہئیے، سانحہ کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ

پیر 19 دسمبر 2016 10:54

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔19دسمبر۔2016ء) سانحہ سول ہسپتال کوئٹہ پر دہشتگردانہ حملے کی اپنی رپورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ انکوائری کمیشن نے ملک کی صف اول کی انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) تک عوام کی رسائی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ میڈیا رپورٹس میں مذکورہ انکوائری رپورٹ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ جو لوگ مشکوک سرگرمیوں بارے خفیہ ایجنسی کو معلومات دینا چاہتے ہیں ان کے پاس ان سے رابطہ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق مذکورہ حساس ادارے آئی ایس ائی کی نہ تو کوئی ویب سائیٹ ہے اور نہ ہی ای میل اکاؤنٹ۔ کمیشن نے کہا کہ دیگر ممالک کی لگ بھگ تمام ایجنسیوں نے ٹیلی فون نمبر ، ای میل ایڈریس کی تفصیلات عوام کے لئے رکھی ہیں۔ امریکہ کی سی ائی اے ، ایف بی آئی نے اپنی ویب سائیٹ پر رابطے کی تفصیلات دی ہیں۔

(جاری ہے)

اس طرح برطانوی خفیہ ایجنسیوں نے بھی اپنے نمبرز ویب سائٹ پر دے رکھے ہیں۔

کمیشن نے کہا ہے کہ اس نے حکومتی اداروں کو خطوط لکھے جن سے کچھ سوالات کے جوابات مانگے گئے۔ نتیجے کے طور پر اسٹیبلشمنٹ ڈویشن ، فنانس ڈویژن ، وزارت داخلہ، وزارت مذہبی امور، سیفران ، ایف آئی اے، آئی ایس آئی اور انسداد دہشتگردی اتھارٹی سے جوابات موصول ہوئے۔ تمام کوئی بھی جوابات لیٹر ہیڈز پر نہیں تھے۔ اور یہ صرف سادہ کاغذ پر تھے جن میں کوئی ایڈریس، ای میل اکاؤنٹ اور کوئی پوسٹ آفس باکس نمبر نہیں تھا۔

اس طرز پر دیگر صوبوں سے بھی جوابات موصول ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے قائم کردہ اس کمیشن کو وزارتوں ، حکومتی محکموں اور ایجنسیوں کا محل وقوع معلوم کرنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑا اور بے چارے عوام کا کیا حال ہو گا؟ کمیشن نے ایف سی کے کردار پر بھی حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ بات واضح نہیں ہے کہ بلوچستان میں اس کا اصل کردار کیا ہے ۔

مدارس کے تعلیمی بورڈز کا حوالہ دیتے ہوئے کمیشن نے کہا کہ اس نے ان میں سے 5کو خطوط لکھے جن میں وفاق المدارس السلفیہ ، مدارس العربیہ، وفاق المدارس الشیعہ، تنظیم المدارس اور رابطہ مدارس اسلامیہ شامل ہیں۔ کمیشن نے ان سے پوچھا کہ کیا کسی مسجد یا مدرسے کا جماعت الصران، لشکر جھنگوی عالمی یا کسی دوسری جماعت سے تعلق تو نہیں ہے جن کو انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997ء کے تحت کالعدم قرار دیا گیا ہو۔

کمیشن کو تمام وفاق المدارس سے جوابات موصول ہوئے جن میں کہا گیا کہ 26465مدارس ان کے ساتھ منسلک ہیں اور وہ نفرت اور انتہا پسندی کے خلاف ہیں۔ تاہم تنظیم المدارس اہل سنت نے ہر مدرسے میں مانیٹرنگ کے حوالے سے مشکلات کا ذکر کیا ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وزارت مذہبی امور نے کہا کہ مجموعی طور پر 11852مدارس رجسٹرڈ ہیں اور کہا کہ وفاق المدارس العربیہ کا ڈیٹا ابھی آنا باقی ہے۔ کمیشن نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ وزارت کے پاس مدارس بارے بنیادی ڈیٹا بھی نہیں ہے کمیشن نے کہا کہ ریاست کو تمام تعلیمی اداروں سمیت مدارس کا مکمل ریکارڈ رکھنا چاہیئے۔

متعلقہ عنوان :