سانحہ کوئٹہ کمیشن رپورٹ کو ہر فور م پر چیلنج کر ونگا ،چوہدری نثار

وزیراعظم کو پیش کش کی استعفیٰ دے کر ریکارڈ درست کرانا چاہتا ہوں لیکن انہوں نے کہا یہ میرے لیے ناقابل قبول ہے رپورٹ میں سرکاری نہیں بلکہ ذاتی الزامات لگائے گئے، سمجھ نہیں آئی ہمارا موقف سامنے آئے بغیر یکطرفہ خبر کیسے سامنے آگئی پارلیمنٹ میں میرے خلاف جتنی تحریک التوا پیش کردیں ان کا سامنا کر ونگا ،میں گناہ گاہ انسان ہوں لیکن جھوٹ نہیں بولتا ملک کی سکیورٹی انتہائی حساس معاملہ ہے،نیشنل ایکشن پلان کوآرڈینیشن پر وہ ناصر جنجوعہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں،میں اہل سنت والجماعت کے وفد سے نہیں دفاع پاکستان کونسل سے ملا اور وہ کالعدم نہیں میرے لئے وزارت اہم نہیں عزت اہم ہے، عزت کے بغیر عہدے لعنت سے کم نہیں ، عمران خان یابچہ پارٹی جہاں کہے مذاکرے کو تیار ہوں،وفاقی وزیر داخلہ کا پریس کانفرنس سے خطاب

اتوار 18 دسمبر 2016 05:06

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔18دسمبر۔2016ء )وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ سانحہ کوئٹہ کمیشن رپورٹ پر سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ میں اپنا موقف پیش کر ونگا ، رپورٹ میں سرکاری نہیں بلکہ ذاتی الزامات لگائے گئے، سمجھ نہیں آئی ہمارا موقف سامنے آئے بغیر یکطرفہ خبر کیسے سامنے آگئی، پارلیمنٹ میں میرے خلاف جتنی تحریک التوا پیش کردیں ان کا سامنا کر ونگا ،میں گناہ گاہ انسان ہوں لیکن جھوٹ نہیں بولتا،ملک کی سکیورٹی انتہائی حساس معاملہ ہے،نیشنل ایکشن پلان کوآرڈینیشن پر وہ ناصر جنجوعہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں،میں اہل سنت والجماعت کے وفد سے نہیں دفاع پاکستان کونسل سے ملا اور وہ کالعدم نہیں،میرے لئے وزارت اہم نہیں عزت اہم ہے، عزت کے بغیر عہدے لعنت سے کم نہیں ، وزیراعظم سے کہا کہ استعفیٰ دے کر ریکارڈ درست کرانا چاہتا ہوں لیکن انہوں نے کہا یہ میرے لیے ناقابل قبول ہے،عمران خان یابچہ پارٹی جہاں کہے مذاکرے کو تیار ہوں۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہارانہوں نے ہفتہ کے روز اسلام آباد میں ریس کانفرنس کے دوران کیا ۔ چوہدری نثار نے کہا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے ایک جج کی رپورٹ میڈیا میں مرچ مصالحوں کے ساتھ پڑھی جب کہ رہی سہی کسر ان لوگوں نے پوری کردی،جن لوگوں کی مجھ سے سیاسی و غیر سیاسی تکلیف تھی۔ میں گناہ گاہ انسان ہوں لیکن جھوٹ نہیں بولتا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں کہا گیا کہ کہا گیا کہ وزیر داخلہ نے غلط بیانی کی، رپورٹ میں سرکاری نہیں بلکہ ذاتی الزامات لگائے گئے۔

یہ سمجھ نہیں آئی کہ ہمارا موقف سامنے آئے بغیر یکطرفہ خبر کیسے سامنے آگئی۔وزیر داخلہ نے کہا کہ مجھے سیاست میں 35 سال ہوگئے ہیں، اس دوران کئی فیصلے میرے خلاف آئے اور انہیں خندہ پیشانی سے قبول بھی کیا، میں سوچ نہیں سکتا تھا کہ ایسی کوئی بالواسطہ چیز سامنے آئے گی، کسی کو احساس نہیں کہ ملک کی سکیورٹی انتہائی حساس ہے، سکیورٹی پلان اوردہشت گردی کے خلاف جنگ کونقصان پہنچایا جارہا ہے۔

دہشتگردوں میں سب سے بڑی ضرورت سول ملٹری تعاون کی ہے۔آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ مشترکہ طور پر کیا گیا ، 90 فیصد سے زیادہ آپریشن پولیس کے ذریعے کیے گئے اور 20 ہزار سے زیادہ انٹیلی جنس بنیاد پر آپریشن ہوئے۔ جو واقعات ہوئے اس پر تنقید جبکہ جن سے بچایا ان پر بات نہیں کی جاتی۔ انہوں نے کہا ایک ہی رٹ لگائی ہوئی کہ مشرف کو باہر جانے دیا پھر بھی مشرف کو ڈھائی سال تک باہر نہیں جانے دیا جبکہ عدلیہ کے فیصلوں کے بعد مشرف باہر گئے۔

وزیر داخلہ نے کہا ایان علی پر الزامات ہیں جو میں نے نہیں لگائے جبکہ 90 فیصد کرپشن کیسز پر ایک جماعت کو تکلیف ہے۔ ایک بچے کے ذریعے جو منہ میں ا?تا ہے کہلوا دیا جاتا ہے۔ ان سب چیزوں کا مطلب صرف تضحیک کرنا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ کامیابی کی صورت میں اس کے کئی ذمہ دار نکل آتے ہیں لیکن ناکامی کی صورت میں وزارت داخلہ ، وزیر داخلہ اور حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔

جس نے نیشنل ایکشن پلان کو پڑھا ہی نہیں وہ اس پر نکتہ چینی کرنے لگتا ہے۔وزیر داخلہ نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ان کے خلاف جتنی تحریک التوا پیش کردیں وہ ان کا سامنا کریں گے اور سانحہ کوئٹہ کمیشن رپورٹ پر سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ میں صفائی پیش کریں گے۔ انہوں نے کہا سپریم کورٹ میں مجرم کو بھی اپنی صفائی کا موقع دیا جاتا ہے اور مجرم کو اس وقت مجرم نہیں کہا جاتا جب تک الزامات ثابت نہ ہو جائیں۔

گزشتہ 2 دنوں میں میڈیا میں میری اور وزارت داخلہ پر تنقید ہو رہی ہے جبکہ میرے خیر خواہوں کے منہ میں جو آتا ہے کہہ دیتے ہیں۔چوہدری نثار نے مزید کہا کہ 5 مرتبہ نیشنل ایکشن پلان کو پارلیمنٹ میں پیش کرچکا ہوں، کسی نے قومی ایکشن پلان پر کوئی جواب نہیں دیا، نیکٹا جب میرے اختیار میں آیا تو 5 ماہ سے عمارت کا کرایہ بھی نہیں دیا گیا تھا، انہیں سانحہ کوئٹہ کے تحقیقاتی کمیشن کی جانب سے ایک خط ملا جس میں 5 سوال کئے گئے تھے۔

سانحہ کوئٹہ کمیشن کے سوالات میں ایک سوال بھی سانحہ سے متعلق نہیں تھا، نیشنل ایکشن پلان کوآرڈینیشن پر وہ ناصر جنجوعہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، میں اہل سنت والجماعت کے وفد سے نہیں دفاع پاکستان کونسل سے ملا اور وہ کالعدم نہیں، اس تنظیم میں( ق) لیگ بھی شامل ہے، اس وفد میں مولانا سمیع الحق نے مجھ سے بات کی تھی، وفد میں مولانا احمد لدھیانوی کی شمولیت کا انہیں علم ہی نہیں تھا اور وہ اس پوری ملاقات میں خاموش ہی رہے۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ فورتھ شیڈول میں شامل شخص کی شہریت منسوخ نہیں کر سکتے، کسی کی شہریت منسوخ کرنے کا اختیاروزارت داخلہ کے پاس نہیں، کتنا ہی بڑا مجرم کیوں نہ ہو اسکی شہریت منسوخ نہیں کرسکتے، حسین حقانی کیا کچھ نہیں کرتے رہے لیکن ان کے پاس پاکستانی شہریت اور پاسپورٹ ہے، جن کے دور حکومت میں جس دن دھماکا نہ ہو وہ خبر ہوتی تھی۔

کراچی ایئرپورٹ پر حملے سے پہلے اس راستے تک کا بتایا گیا تھا کہ وہ کس راستے میں داخل ہوں گے اور وہی ہوا۔ وزیر داخلہ نے کہا ملک کی سیکورٹی کے حوالے سے ہمیں نقصان ہو گا کیونکہ ملک کی اندرونی سیکورٹی بہت احساس ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سول ملٹری تعلقات انتہائی اہم ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا وزیراعظم سے کہا کہ استعفیٰ دے کر ریکارڈ درست کرانا چاہتا ہوں لیکن انہوں نے کہا یہ میرے لیے ناقابل قبول ہے۔

اب میں ہر پلیٹ فارم سے وضاحت کروں گا ۔وزیر داخلہ نے کہا کمیشن نے کہا اخباری ثبوت موجود ہیں کہ 21 اکتوبر کو آپ اہلست والجماعت سے ملے۔ پہلا سوال کیا گیا کہ آپ اہلسنت والجماعت کے وفد سے کیوں ملے۔ میں اہلسنت والجماعت کے وفد سے نہیں ملا کیونکہ اسلام آباد میں جلسوں کی اجازت دینا یا نہ دینا میری ذمہ داری نہیں ہے انتظامیہ کا کام ہے۔ ہم نے جواب دیا ہمیں ایسی کوئی خبر نہیں ملی کہ وزیر داخلہ کی وفد سے ملاقات ہوئی ہو اور کمیشن نے اس کے جواب میں ایک تصویر بھیج دی جو کوئی اخباری رپورٹ نہیں تھی۔

انہوں نے کہا دفاع پاکستان کونسل 2009 میں معرض وجود میں آئی دفاع پاکستان کونسل میں دینی و سیاسی جماعتیں شامل ہیں جس کا گروپ ہی مجھ سے ملنے آیا تھا اور وزارت کو علم نہیں تھا کہ مولانا لدھیانوی بھی اس وفد کا حصہ ہوں گے۔ وفد کی طرف سے شناختی کارڈ کے مسئلے پر وقت مانگا گیا تھا۔وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا مولانا لدھیانوی نے عام انتخابات میں حصہ لیا کسی نے اعتراض نہیں اٹھایا جبکہ دفاع پاکستان کونسل کالعدم تنظیم نہیں ہے۔

سیاسی جماعتوں سے پوچھا جائے کہ مولانا لدھیانوی کو وفد کے ساتھ کیوں لائے۔ پوچھا گیا اسپیشل سیکریٹری کی تعیناتی کیوں کی گئی؟۔ تعیناتی قانون کے مطابق کی گئی تاہم جواب وزیر اعظم ہاوٴس سے لیں۔ انہوں نے کہا پچھلی حکومت کے 5 سال میں ملک کا تیا پانچا کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں ہزاروں میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے۔ اس دور میں دھماکا نہ ہونا خبر ہوتی تھی اور اس وقت کسی سے جواب طلبی کیوں نہیں کی گئی۔

وزیر داخلہ نے کہا اے پی ایس پر حملے کے دن ہی قبل ازوقت آگاہ کر دیا تھا۔ اسلام آباد میں سفارتکاروں پر حملے ہوئے کیا اس وقت ضمیر نہیں جاگا۔ میریٹ ہوٹل پر حملہ ہوا آج چلملانے والے تب کیوں نہیں بولے۔ انہوں نے مزید کہا میں نے پیسے کو ذریعہ سیاست نہیں بنایا۔ میں نے ایل این جی کا کوئی کوٹہ نہیں لیا نہ میری کوئی آف شور کمپنی ہے اور نہ میرا کوئی پٹرول پمپ ہے۔

چودھری نثار نے کہا ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے وقت لندن میں تھا اور ڈی جی رینجرز سے بات ہوئی۔ ڈاکٹر عاصم جانے نیب جانے اور اللہ تعالی کی ذات۔ وزیر داخلہ نے کہا ملک کے ایک ایک پیسے کا دفاع کیا ہے۔ اپنی عزت کا ہر حال میں دفاع کروں گا۔ سپریم کورٹ کے جج کو سمجھنا چاہیے کہ پیش ہونے والوں کی بھی عزت ہے۔ آج بھی کہا گیا کہ پریس کانفرنس نہ کریں اور جب استعفے کا کہا تو پھر آگے بات بڑھی۔

میرے لیے وزارت نہیں عزت اہم ہے۔ انہوں نے کہا سانحہ کوئٹہ سے متعلق ایک بھی سوال نہیں کیا گیا۔ کمیشن کے مینڈیٹ پر تو نظر ڈالی جائے اور بتایا جائے کون سی غلط بیانی کی؟۔ اگر سمجھا گیا کہ میرے موقف میں وزن نہیں تو قوم اور عدلیہ فیصلہ کرے۔ اس عہدے پر رہا تو عزت کے ساتھ رہوں گا۔چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ میرے لئے وزارت اہم نہیں عزت اہم ہے، عزت کے بغیر عہدے لعنت سے کم نہیں ، میں 35 سال سے سیاست میں ہوں لیکن نا میں نے پیٹرول پمپ بنائے اور نہ عہدوں کی سیاست کی، میں نے کوئی این ایل جی کا کوٹہ نہیں لیا، آف شور کمپنی نہیں بنائی ، فیکٹری نہیں لگائی۔

فوج، وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی سے متعلق سب بتانے کو تیار ہوں۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا تمام ریکارڈ سامنے لاوٴں گا، میری ڈاکٹر عاصم یا پیپلز پارٹی سے کوئی دشمنی نہیں، مجھ پر ایان علی اور ڈاکٹرعاصم کے کیس کا الزام مجھ پر لگایا جاتا ہے، جس دن ڈاکٹر عاصم گرفتار ہوئے اس دن میں لندن میں تھا ، ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پرڈی جی رینجرز اور اس وقت کے آرمی چیف سے بات کی تھی۔پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی جانب سے پاناما لیکس پر بات کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ عمران خان یابچہ پارٹی جہاں کہے مذاکرے کو تیار ہوں، بچے کے منہ میں جو آتا ہے اس سے کہلواتے ہیں، کوئی اس بچے کو سمجھائے کہ پاناما لیکس میں ان کی والدہ کا بھی نام ہے۔