برازیل: فوجی حکمرانی کے حامی پارلیمنٹ میں گھس گئے

40 کے قریب مظاہرین نے گارڈ کے ساتھ ہاتھا پائی کی، اجلاس کے آغاز پر ہی دھاوا بول دیا، بدعنوانی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے فوجی حکومت کا مطالبہ کیا

جمعہ 18 نومبر 2016 11:08

برازیلیا (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔18نومبر۔2016ء)برازیل کے دارالحکومت برازیلیا میں درجنوں کی تعداد میں مظاہرین کانگریس کے ایوان زیر میں زبردستی داخل ہوگئے جو ملک میں فوجی بغاوت کا مطالبہ کر رہے تھے۔بدھ کو کم از کم 40 کے قریب مظاہرین نے گارڈ کے ساتھ ہاتھا پائی کی اور اجلاس کے آغاز پر ہی دھاوا بول دیا۔حکومت کی بدعنوانی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے انھوں نے فوجی حکومت کا مطالبہ کیا۔

خیال رہے برازیل میں سنہ 1964 سے سنہ 1985 تک فوجی حکمرانی رہی تھی۔ریو ڈی جنیرو میں پولیس نے سرکاری ملازمتوں میں کٹوتیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے ملازمین پر آنسو گیس کا استعمال کیا ہے۔مظاہرین سکیورٹی گارڈز کو پیچھے دھکیل دیا اور ایک شیشے کا دروازہ توڑ دیا اور پارلیمان کے چیمبر میں داخل ہوگئے جہاں انھوں نے 'جنرل یہاں، جنرل یہاں' کے نعرے لگائے اور قومی ترانہ گایا۔

(جاری ہے)

پولیس کی جانب سے تمام مظاہرین کا گھیراوٴ کرنے میں تین گھنٹے لگے اور تمام افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔بعدازاں صدر مچل ٹیمر کے ترجمان الیگزینڈر پرولا نے مظاہرے کو 'توہین' قرار دیا اور کہا کہ یہ 'جمہوری اقدار کی خلاف ورزی تھی۔'ایک کانگریسی نائب بیٹنہو گومیز کا کہنا تھا کہ 'یہ پریشان کن ہے اور اسے تنبیہہ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

ہم شدت پسند کے دور کی جانب واپس جارہے ہیں۔'خیال رہے کہ بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے سکینڈل اور صدر زلما روسیف کے مواخذے کے بعد برازیلی پارلیمان اور اداروں پر عوامی اعتماد میں کمی دیکھی گئی ہے۔صدر زلما روسیف کے نائب صدر تھے اور ڈلما کے جانے کے بعد انھیں صدر کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔ گذشتہ ہفتے ڈلما روسیف نے عدالت میں دستاویز پیش کی ہیں جس میں صدر ٹیمر پر بھاری رشوت لینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ان کی پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ رقوم قانونی طور چندہ مہم کے دوران اکٹھی کی گئی تھیں۔

متعلقہ عنوان :