پانامہ لیکس کیس:پی ٹی آئی کی دستاویزات کا کیس سے کوئی تعلق نہیں ،سپریم کورٹ

درخواست گزار نے سچ کو خود ہی دفن کر دیا ،اخباری تراشے کوئی ثبوت نہیں ہوتا، اخبارایک دن خبر ہوتا ہے اگلے روز اس میں پکوڑے فروخت ہوتے ہیں،جسٹس عظمت سعید کے ریمارکس سپریم کورٹ تفتیشی ادارہ ہے نہ ہی بدعنوانی یا کرپشن مقدمات کی سماعت کرنا اس کا کام ہے، چیف جسٹس آف پاکستان چاہتے تھے 2 یا 3 سماعتوں میں فیصلہ ہو جائے ،ایک طرف700 ،دوسری طرف1600 صفحات جمع کرائے گئے ،کمپیوٹر نہیں سب کچھ سکین کر لیں،1947 سے تحقیقات شروع ہوئیں تو فیصلہ کرنے میں20 سال لگ جائیں گے،نیب اور دیگر اداروں کی ناکامی کا ملبہ ہم پر نہ ڈالیں، انور ظہیر جمالی کے ریمارکس یہ اہم کیس ہے ، تیزرفتاری سے چلانے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے، طارق اسد ایڈووکیٹ پاکستان سے کوئی پیسہ باہر نہیں گیا ،قطر کے سربراہ کی دستاویزات عدالت میں پیش کرنا چاہتے ہیں، اکرم شیخ آپ کی دستاویزات وزیر اعظم کے پارلیمنٹ میں دیئے گئے بیان کے برعکس ہیں، جسٹس آصف سعید کھوسہ پورا ملک انصاف کیلئے عدالت کی طرف دیکھ رہا ہے، آج قطر سے دستاویزات آئیں کل گاندھی کی طرف سے ا ٓ جائے جس کی تصدیق مودی نے کی ہو، شیخ رشید آپ لائر ہیں یا لائیر؟وکالت اختیار کر لیتے تو کامیاب ہو جائے چیف جسٹس اور شیخ کے درمیان دلچسپ مکالمہ

بدھ 16 نومبر 2016 11:23

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔16نومبر۔2016ء)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے پاناما لیکس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ سپریم کورٹ تفتیشی ادارہ نہیں ہے اور نا ہی بدعنوانی یا کرپشن مقدمات کی سماعت کرنا سپریم کورٹ کا کام ہے جبکہ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے ہیں کہ تحریک انصاف کی جانب سے جمع کرائی گئی دستاویزات کا کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے ،درخواست گزار نے سچ کو خود ہی دفن کر دیا ہے،اخباری تراشے کوئی ثبوت نہیں ہوتا، اخبارایک دن خبر اگلے روز اس میں پکوڑے فروخت ہوتے ہیں۔

اگر اخبارمیں خبر آجائے کہ اللہ دتہ نے اللہ رکھا کو قتل کردیا ہے تو کیا ہم اللہ دتہ کو پھانسی دے دیں گے۔منگل کے روز چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ ،جسٹس امیر ہانی مسلم، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل لارجر بینچ پاناما لیکس کیس کی سماعت کی ، وزیراعظم کے بچوں حسین، حسن اور مریم نواز کی جانب سے اکرم شیخ عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے وزیر اعظم کے بچوں کی جانب سے جواب داخل کرایا، وزیراعظم اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے 400 صفحات سے زائد پر مشتمل دستاویزات عدالت عظمیٰ میں جمع کرائیں۔

(جاری ہے)

دستاویزات میں وزیراعظم نواز شریف کے ٹیکس ادائیگی سمیت زمین اور فیکٹریوں سے متعلق تفصیلات شامل ہیں۔دوسری جانب زمینوں کے انتقال نامے بھی دستاویزات میں شامل کیے گئے۔کیس کی ابتدائی سماعت میں طارق اسد عدالت کو بتایا کہ یہ بہت اہم کیس ہے ، تیزرفتاری سے چلانے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔ آف شور کمپنیوں کے مالک تمام ارکان پارلیمنٹ کے خلاف تحقیقات کی جائے ۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ کرپشن کی تحقیقات سپریم کورٹ کا کام نہیں ،کسی اے بی سی نے کرپشن کی ہے تو نیچے عدالتیں موجود ہیں ،طارق اسد صاحب کیا آپ اس عدالتی کارروائی کو سائیڈ ٹریک کرنا چاہتے ہیں؟ایسا لگتا ہے آپ درخواست گزار نہیں نواز شریف کے وکیل ہیں، آپ کے جواب سے لگتا ہے کہ آپ مقدمے کا فیصلہ نہیں چاہتے، یہ ہمارا کام ہے ، انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے، اگر 800 افراد کی تحقیقات شروع کی تو 20 سال لگ جائیں گے، پاناما لیکس پر اتنی درخواستیں آرہی ہیں شاید الگ سے سیل کھولنا پڑے،چیف جسٹس نے کہا کہ چاہتے تھے کہ 2 یا 3 سماعتوں کے بعد فیصلہ کر لیں لیکن ایسا ممکن نہیں دکھائی دے رہا، ایک درخواست میں 1947 سے احتساب کی استدعا کی گئی ہے، 700 صفحات ایک طرف سے جبکہ دوسری جانب سے 1600 صفحات جمع کرائے گئے ہیں۔

ہم کوئی کمپیوٹر تو نہیں ایک منٹ میں صفحات کو اسکین کرلیں۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ نیب اور دیگر اداروں کی ناکامی کاملبہ ہم پر نہ ڈالیں ، ہم بار بار کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ تفتیشی ادارہ نہیں ہے ، بدعنوانی یا کرپشن مقدمات کی سماعت کرنا سپریم کورٹ کا کام نہیں، دستاویزات آ گئی ہیں، اگلا مرحلہ کمیشن کی تشکیل ہے، عمران خان کی درخواست چار فلیٹس تک محدود ہے اس لیے پہلے سنیں گے۔

جسٹس عظمت سعید نے تحریک انصاف کے وکیل حامد خان سے استفسار کیا کہ درخواست گزار نے سچ کو خود ہی دفن کردیا ہے، پی ٹی آئی کی دستاویزات میں اخباری تراشے بھی شامل ہیں حالانکہ اخبارات کے تراشے کوئی ثبوت نہیں ہوتا، پی ٹی آئی کی ان دستاویزات کا کیس سے تعلق ہی نہیں، اخبارایک دن خبر ہوتا ہے اگلے روز اس میں پکوڑے فروخت ہوتے ہیں۔ اگر اخبارمیں خبر آجائے کہ اللہ دتہ نے اللہ رکھا کو قتل کردیا ہے تو کیا ہم اللہ دتہ کو پھانسی دے دیں گے۔

وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ حسن اور حسین نواز پاکستان میں مقیم نہیں، مریم نواز کی جانب سے دستاویزات جمع کروا دی ہیں، وہ اپنے موکلین کی ایک دستاویز کے علاوہ تمام دستاویزات جمع کرارہے ہیں۔ اکرم شیخ نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ پاکستان سے کوئی پیسہ باہر نہیں گیا ، میاں شریف کے70کی دہائی میں صنعتی 6 یونٹ تھے، گلف اسٹیل دبئی کے امیر راشد المکتوم کی مدد سے لگائی گئی، 1980 میں پہلے 75 فیصد پھر 25 فیصد حصص بیچے گئے۔

اکرم شیخ نے استدعا کی کہ وہ قطر کے سربراہ کی دستاویز عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں، اس لیے بعض دستاویزات صرف عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اکرم شیخ سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو اس دستاویز کی حساسیت کا پتا ہے، جو دستاویزات آپ نے دی ہیں وہ وزیراعظم کے پارلیمنٹ میں بیان کے برعکس ہیں، وزیر اعظم کے عوامی موقف میں اور آپ کے بیان میں فرق ہے، وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں کہا تھا جو بچا کچا سرمایہ تھا اس سے دبئی میں مل لگائی، دبئی والی مل فروخت کرکے عزیزیہ میں مل لگائی گئی، کیا قطر کے سابق وزیراعظم گواہی کیلئے عدالت آئیں گے۔

اگر یہ جمع کرائی گئیں تودوسرا فریق چاہے گا کہ وہ بھی اس کا مطالعہ کرے۔ اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ آپ کے پاس اس کے علاوہ بتانے کوکچھ نہیں۔اکرم شیخ نے کہا کہ میں وزیر اعظم کے بچوں کا وکیل ہوں وزیر اعظم کا نہیں ، میں نتائج کی پرواہ کیے بغیر عدالت کی معاونت کروں گا۔وزیر اعظم کا جواب ان کے وکیل سلمان اسلم بٹ دیں گے۔سماعت کے دوران شیخ رشید نے موقف اختیار کیا کہ پورا ملک انصاف کے لیے آپ کی طرف دیکھ رہا ہے ، آج قطر سے دستاویزات آئیں کل گاندھی کی طرف سے آجائے جسکی تصدیق مودی نے کی ہو۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لائر ہیں یا لائیر ہیں؟ اس دوران چیف جسٹس اور شیخ رشید کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔ چیف جسٹس نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ سیاست چھوڑ کر وکالت اختیار کرلیں جس پر شیخ رشید نے آپ کی تجویز پر غور کروں گا۔تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے عدالت سے استدعا کی کہ جمع کرائی گئیں دستاویزات کے مطالعے کے لیے انہیں 48 گھنٹوں کا وقت دیا جائے۔ عدالت نے فریق مقدمہ بننے کی مختلف درخواستیں مسترد کرتے ہویئے مزید سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔