سینیٹ قائمہ کمیٹی خزانہ کی پا نچ ہزار روپے کے نوٹ ختم کرنے کی سفارش

جمعہ 11 نومبر 2016 10:58

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔11نومبر۔2016ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ نے ملک سے پا نچ ہزار روپے کے نوٹ ختم کرنے کی سفارش کر دی بڑے نوٹ مرحلہ وار ختم کر دئے جائیں تو لوگ بنکوں میں سرمایہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ٹرانزیکشن کی طرف جائیں گے ، جبکہ حکومت کو بینکنگ ٹرانزیکشن میں کافی ٹیکس بھی اکٹھا ہوا کرے گا پہلی سہ ماہی میں ریونیو میں کمی پراپرٹی پر لگائے گئے نئے ٹیکس اور بنک ٹرانزکشنز سے اندازے کے مطابق ٹیکس حاصل نہ ہونے سے ہوئی ہے 3613ارب روپے کا ٹیکس ٹارگٹ بہت سخت ہے اس کو حاصل کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے جا رہے ہیں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی صدار ت میں جمعرات کو پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہوا اس موقع پر ایف بی آر کے جار ی کردہ بجٹ میں سے ریونیوڈویژن میں پہلی سہ ماہی کے اخراجات ، پی وی سی کی برآمد پر غیر ضروری پابندیوں مالی سال 2016-17 کی پہلی سہ ماہی میں ٹیکس وصولیوں میں کمی کا ایجنڈا زیر بحث آیا۔

(جاری ہے)

چیئرمین ایف بی آر نثار خان نے آگاہ کیا کہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں اخراجات14 فیصد ہوئے بجٹ کے بڑے اخراجات ملازمین پر ہوتے ہیں ۔پچھلے برس کے ہدف کی بنیاد پر 21 فیصد اضافہ دکھایا گیا تھا ۔پہلی سہ ماہی میں625 ارب روپے جمع ہوئے ،2013 میں مالی بڑھوتری تین فیصد اور اس سال 21 فیصد ہوئی ۔کھاد پر دی گئی دو سے اڑھائی ارب تک دی گئی سبسڈی وزارت کو واپس ہوئی ، دس ارب کے سیل ٹیکس میں ہد ف سے زیادہ اضافہ ہوا ۔

بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی سے پچھلے سال کی نسبت اس سہ ماہی میں اچھا خاصا نقصان ہوا۔ برآمدات میں کمی ہوئی تیل کی قیمتوں کا صارفین کو بہت فائدہ ہو ا لیکن ٹیکس کم جمع ہوا ، کھاد پر 17 فیصد سیلز ٹیکس پانچ فیصد کر دیا گیا ، ٹیکسٹائل شعبے پر ٹیکس ختم کیا گیا ۔ پراپرٹی پر لگائے گئے نئے ٹیکس اور بنک ٹرانزکشنز سے اندازے کے مطابق اضافہ نہیں ہوا ۔

دوسری سہ ماہی میں اضافے کی امید ہے اور کہا کہ برآمدات کے ریٹ زائد کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اس سال بجٹ سے قبل انکم ٹیکس آرڈنینس کی شق 138 کو ختم کریں گے اور کہا کہ 50 ارب روپے کی کمی کو پورا کرنے کیلئے ایف بی آر کیا اقدامات اٹھائے گااور کہا کہ نیشنل بنک آف پاکستان سے دسمبر کے ٹیکسز پہلے وصول کر لئے گئے ہیں بار بار نوٹس دیئے جاتے ہیں ان حربوں کے ذریعے ایڈوانس ٹیکس وصولی کو سرکاری کاغذات میں دکھایا جاتا ہے حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا، جو ٹیکس نہیں دیتے ان کے خلاف اقدامات نہیں اٹھائے جاتے ۔

چیئرمین کمیٹی نے میڈیا میں نئی ایمنسٹی سکیم کی خبروں کی کا سوال اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ حکومت کا منصوبہ کیا ہے ۔چیئرمین ایف بی آر نثار خان نے بتایا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں معاملہ زیر بحث ہے ایف بی آر کو کوئی تجویز نہیں آئی لیکن دس کروڑ روپے کی پراپرٹی خریدنے والا ایک کروڑ روپیہ مالیت لکھتا ہے پوچھیں گے پیسے کہاں سے آئے اور اس پر ٹیکس لیں گے ۔

سینیٹر سعو د مجید نے کہا کہ سینیٹ مجلس قائمہ خزانہ کی سفارش پر اپیل کا حق دیا گیا ۔سینیٹر عثمان سیف اللہ خان نے تجویز دی کہ پا نچ ہزار کے نوٹ ختم کر دیئے جائیں تو لوگ بنکوں کی طرف جائیں گے ، پانچ سو کا یورو نوٹ منی لانڈرنگ میں بھی استعمال ہورہا ہے ۔چیئرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ بنکوں سے کئی ارب روپے نکال لئے گئے ہیں ۔ ٹرانزکشنز نہیں ہو رہی ۔

سینیٹر فتح محمد حسنی نے کہا کہ وزارت خزانہ سے پوچھے بغیر وزارت تجارت فیصلہ کرتی ہے کہ جس سے اربوں روپے کا اضافی فنڈ بند ربانڈ میں چلا جاتا ہے ۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ پی وی سی بہت بڑی تعداد میں سمگل ہو رہی ہے اور حکومت کو ریونیو بھی نہیں مل رہا ۔سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ 14700 ٹیکس فائلر میں کمی ہوئی ہے ۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ نومبر میں تعداد زیادہ ہوجائے گی ۔ اجلاس میں سینیٹرز عائشہ رضا فاروق ، نسرین جلیل، کامل علی آغا، مشاہد اللہ خان، سعود مجید، فتح محمد محمد حسنی ، عثما ن سیف اللہ خان، ایف بی آر کے چیئرمین نثار خان اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی