حکومت کی نااہلی،400ارب کے مقدمات عدالتوں میں زیر التوا

506آڈٹ اعتراضات کو عدالتوں میں چیلنج کر کے کرپٹ عناصر قومی خزانے کے اربوں روپے استعمال کر رہے ہیں،آڈیٹر جنرل سرکاری اداروں کا سو فیصد آڈٹ کیا جائے تو کھربوں روپے کی کرپشن سامنے آسکتی ہے،پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بریفنگ

بدھ 9 نومبر 2016 11:46

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔9نومبر۔2016ء) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی )کو بتایا گیا کہ حکومت کی نااہلی کے باعث400ارب روپے کے مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر التوا ہیں جن کو جلد از جلد نمٹانے کیلئے ہدایات جاری کر دی گئی ہیں ،آڈیٹر جنرل نے کمیٹی کو بتایاکہ اگر سرکاری اداروں کا سو فیصد آڈٹ کیا جائے تو کھربوں روپے کی کرپشن سامنے آسکتی ہے کمیٹی میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 506آڈٹ اعتراضات کو عدالت میں چیلنج کر کے قومی خزانے سے اربوں روپے کرپٹ عناصر استعمال کر رہے ہیں پی اے سی نے تمام وزارتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تفصیلات فراہم کریں ۔

گزشتہ روز کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سید خورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

(جاری ہے)

اجلاس میں آڈٹ حکام نے بتایا کہ اس وقت 506مقدمات عدالتوں میں گزشتہ کئی سالوں سے زیر التوا چلے آرہے ہیں جبکہ 10فیصد آڈٹ کرنے کے باعث 400ارب روپے بنے ہیں اگر باقاعدگی سے چانچ پڑتال کی جائے تو چالیس کھرب روپے سے زائد کی رقم بنے گی۔کمیٹی کو وفاقی سیکرٹری برائے قانون انصاف کرامت حسین نیازی نے بتایا کہ گورننس کے ذریعے اداروں کی استعدادکار میں اضافہ کرکے اس مسئلے پر قابو پایاجاسکے گا ۔

عدالتوں کی جانب سے نوٹسز کی کاپی تاخیر سے ملنے پر مقدمات تاخیر کا شکار ہوتے ہیں متعلقہ اداروں کے پاس قانونی آگاہی عدم پیروی اور لیگل ایڈوائزز کا تاخیر سے تعیناتی وزارت قانون اور قانونی ماہرین سے مشاورت نہ کرنا بھی شامل ہے۔ کمیٹی کو آڈیٹر جنرل رانا اسد امین نے بتایاکہ 506 آڈٹ اعتراضات عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات سے متعلق ہیں جس پر چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے کہاکہ سرکاری اداروں کے 20ہزار ماہوار تنخواہ والے وکیل پیش ہوتے ہیں کمزور وکلا کے سامنے بھاری بھاری فیس لینے وکیل عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں ان سے بیس ہزار لینے والا وکیل کیسے مقدمہ جیت سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل اشترااوصاف نے کہاکہ ہمارے پاس مصدقہ اعدادوشمار ہونے چاہئیں تاکہ پتہ چلے کہ کون کون سے مقدمات ایسے ہیں کہ جن میں فیصلے سرکار کے حق میں ہیں اور کون سے ایسے مقدمات ہیں جن میں فیصلے سرکار کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام اداروں کو ہدایت کی جائے کہ وہ یہ تفصیلات فراہم کریں، اس حوالے سے کئے ایس او پیر بنانے چاہئیں، اداروں کی طرف سے پیروی کرنے والے لوگوں کی ٹریننگ بہت ضروری ہے۔

انہوں نے کہاکہ میں نے تجویز دی تھی کہ پاکستان لیگل سروس بھی شروع ہونی چاہیے۔ سید نوید قمر نے کہا کہ ہمیں قلیل المدتی لائحہ عمل کی ضرورت ہے، ادارے عدالتوں کے حکم امتناعی کے سامنے بے بس ہوتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ مقدمات کافی عرصے سے چل رہے اس پر سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا اس سلسلے میں مقدمات تصدیق کاڈیٹا ہونا چاہئے کل کتنے مقدمات میں سے حکومت کے حق میں کتنے ہوئے اور کتنے خلاف ہوئے اور کن کن مقدمات کے خلاف اپیلیں دائر ہوئی اور ان مقدمات کا نتیجہ کیا نکلا۔

انہوں نے کہا کہ محکمانہ سطح پر وکلاء کا پینل ہوناچاہیے اور مخصوص نوعیت کے مقدمات اس پینل کو دیکھنے کی ذمہ داری سونپی جائے بنیادی طورپر یہ مسائل کوآرڈینیشن کے فقدات کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم میں صلاحیت موجود ہے مگر اس کیلئے ہمیں مل بیٹھ کر بات کرنے اور لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ سیکرٹری قانون نے کہاکہ وزارتوں اور ڈویڑنوں کی طرف سے عدالتوں کے نوٹسز پر فوری کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔

ای گورننس فالو اپ اور اعدادوشمار کی فراہمی اہم نکات ہیں میری تجویز ہے کہ اس سٹریکچر کا از سر نو جائزہ لیا جانا چاہئے اور لائر سروسز ڈھانچہ ہونا چاہئے تاکہ وہاں سے وکیل آئیں جس پر رکن کمیٹی نوید قمر نے کہا کہ آپ سول سروسز میں ریفارمز کی بات کرتے ہیں ہمیں کم مدتی حل چاہئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوری طور پر ڈیٹا اکٹھا کیا جائے اور بنچ مارک بنایا جائے اور اداروں کی اندر لیگل ایڈوائزر کو مضبوط کیا جائے اور اداروں میں کام کرنے والوں کی ٹرنینگ ہونی چاہئے کم مدتی حل یہ ہے کہ تمام ادارے کیسوں پر فالو اپ جاری رکھیں۔

آڈیٹر جنرل نے کہا کہ جبک تک سیکرٹریز دلچسپی نہیں لیں گے معاملہ حل نہیں ہوگا ماہانہ بنیادوں پر لیگل ایڈوائزز کا اجلاس بلایا جائے۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کیسز جلد نمٹانے کے لئے سیکرٹریز کانفرنس ہوگی۔ رانا اسد امین نے کہاکہ صرف 10فیصد آڈٹ اعتراضات کے مطابق سرکاری خزانے کے 400 ارب روپے ان مقدمات کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں۔رکن کمیٹی جنید انوار چوہدری نے کہاکہ مقدمات کو نمٹانے کے لئے ججز کو ڈیپوٹیشن پر لیا جائے اور محکموں کی ملی بھگت سے بھی حکم امتناعی طوالت اختیار کرتے ہیں ہمیں اس تناظر میں بھی دیکھنا چاہییجس پر سیکرٹری قانون و انصاف نے کہا کہ جو ڈیشل پالیسی کے مطابق ججز کو ڈیپوٹیشن پر نہیں لیا جاسکتا۔

سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے تجویز دی کہ مقدمات کی مدت کا تعین کرنا ضروری ہے۔ کمیٹی نے آڈیٹر جنرل ایک اجلاس طلب کریں جس میں سیکرٹری قانون اور اٹارنی جنرل مل بیٹھ کر قومی خزانے کے 385ارب روپے کی ریکوری کیلئے کوئی لائحہ عمل مرتب کریں جس پر اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہاکہ انہیں جنوری 2017ء تک کا وقت دیاجائے، وہ محکموں کے کیسز، مالیت اور عدالت کی تاریخ کے حوالے سے ایس اوپیز مکمل کمپیوٹرائزڈ دیٹاتیار کرکے کمیٹی کو پیش کریں گے۔چیئرمین کمیٹی پی اے سی سیکرٹریٹ کو ہدایت کی کہ وہ اس حوالے سے تمام وزارتوں کے سیکرٹریز کو بھی خطوط ارسال کریں تاکہ وہ اپنے محکموں کی تمام تفصیلات سے آگاہ کریں۔

متعلقہ عنوان :