کراچی، دہشت گردوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے سے متعلق کیس

سندھ ہائی کورٹ نے ڈاکٹر عاصم، انیس قائم خانی، روٴف صدیقی اور عثمان معظم کی ضمانت منظور کرلی

بدھ 2 نومبر 2016 10:58

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔2نومبر۔2016ء)سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد علی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے دہشت گردوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے سے متعلق کیس میں ڈاکٹر عاصم، انیس قائم خانی، روٴف صدیقی اور عثمان معظم کی ضمانت منظور کرلی۔عدالت میں ملزمان کے وکلا کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے چاروں ملزمان کی درخواست ضمانت مسترد کردی تھی۔

وکلا نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم، انیس قائم خانی، عثمان معظم اور روٴف صدیقی پر الزامات بے بنیاد ہیں۔وکلا کا کہنا تھا کہ ہمارے موکلوں نے ڈاکٹر عاصم کو کسی بھی دہشت گرد کے علاج کے لیے فون نہیں کیا تھا۔عدالت میں موجود سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عاصم کو طبی بنیادوں پر ضمانت دے دی جائے جبکہ انیس قائم خانی، روٴف صدیقی اور عثمان معظم کی ضمانت کی مخالفت کی گئی۔

(جاری ہے)

عدالت میں کیس کے مدعی رینجرز کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہم نے اسپتال میں علاج کروانے والے ملزمان کے خلاف 330 ایف آئی آرز بھی تفتیشی آفیسر کو جمع کروائیں لیکن اسے ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ ماتحت عدالت کا بھی کہنا تھا کہ تفتیشی افسر نے اس کیس میں ملزمان کو فائدہ پہچانے کے لیے ناقص تفتیش کی۔انہوں نے کہا کہ حالانکہ ملزمان نے جے آئی ٹی میں اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا اور ملزمان کے وکلا نے کسی بھی فورم پر جے آئی ٹی کے اخذ کردہ نتائج کو چیلنج نہیں کیا۔

ملزمان کے خلاف بہت سے شواہد موجود ہیں۔انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ملزمان کی درخواست ضمانت کی اپیل مسترد کی جائے۔عدالت نے چاروں ملزمان کی 5، 5 لاکھ کے عوض ضمانت منظور کرتے ہوئے حکم دیا کہ ملزمان بیرون ملک نہیں جا سکتے۔ عدالت نے ملزمان کو اپنے پاسپورٹ بھی عدالت میں جمع کروانے کا حکم دیا۔سندھ ہائیکورٹ نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کو حکم دیا کہ 2 ماہ کے اندر اس کیس کی سماعت مکمل کی جائے۔

واضح رہے کہڈاکٹر عاصم حسین کو گذشتہ برس 26 اگست کو کرپشن اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزامات کے تحت اْس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب وہ ہائر ایجوکیشن کمیشن سندھ کے ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔بعدازاں ان کے خلاف کرپشن، دہشت گردوں کی مالی معاونت اور ان کے علاج کے الزامات پر کراچی کے نارتھ ناظم آباد تھانے میں انسداد دہشت گردی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

انھیں عدالتی حکم پر وقتاً فوقتاً تحقیقات کے لیے ریمانڈ پر رینجرز اور پولیس کے حوالے کیا جاتا رہا، دوسری جانب ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) میں کرپشن ریفرنسز بھی دائر کیے جاچکے ہیں اور نیب ان سے ہسپتالوں کے لیے زمین پر قبضے، ہسپتال کے نام پر سستے داموں زمین کے حصول سمیت ضیاء الدین ٹرسٹ کا غلط استعمال کرتے ہوئے اربوں روپے غیر قانونی طور پر بیرون ملک بھجوانے کی تفتیش کررہا ہے۔

دوسری جانب رواں برس جولائی میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف دہشت گردوں کے علاج اور پناہ دینے سے متعلق کیس میں ایم کیو ایم کے رہنماوٴں وسیم اختر اور روٴف صدیقی، پاک سرزمین پارٹی کے رہنما انیس قائم خانی اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما قادر پٹیل کی ضمانت میں توثیق مسترد کردی تھی، جس کے بعد ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

اس کیس کے سلسلے میں مرکزی ملزم ڈاکٹر عاصم حسین اور پاسبان کے سیکریٹری جنرل عثمان معظم پہلے ہی زیر حراست تھے۔پاسبان پاکستان کے سیکریٹری جنرل عثمان معظم کو رینجرز نے گذشتہ برس 20 جولائی کو حراست میں لیا تھا، جس کے ایک ماہ بعد 28 اگست کو انہیں عدالت میں پیش کیا گیا. رینجرز نے دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے الزامات عائد کرتے ہوئے ان کا 90 روز کا ریمانڈ لیا جس کے بعد 28 نومبر کو ان کو پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔