پانامہ لیکس :سپریم کورٹ نے حکومت اور اپوزیشن سے ٹی او آرز مانگ لئے

فریقین جوڈیشل کمیشن اور ٹی او آرز پر متفق نہ ہوئے تو عدالت خود ٹی او آرز تشکیل دے گی ، سپریم کورٹ پورے ملک میں ہیجان کی کیفیت ہے ،پاناما معاملے کو زیادہ طول نہیں دے سکتے،چیف جسٹس کے ریمارکس آپ لوگ اپنی سیاست جاری رکھیں، پاناما کا مسئلہ عدالت ہی حل کرے گی، ایک بھی دن ضائع نہیں کریں،جسٹس آصف سعید کھوسہ لوگ 8 ماہ سے پش اپس لگا رہے ہیں، کیس کو زیادہ طول نہیں دیں گے، سب کو سخت موقف پر نظر ثانی کرنی چا ہیے، جسٹس عظمت سعید،مزید سماعت کل ہوگی

بدھ 2 نومبر 2016 11:15

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔2نومبر۔2016ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے بعد حکومت اور پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی سمیت دیگر سے تحقیقاتی کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز)پر تحریری جواب طلب کر لئے ، اگر ٹی او آرز کے معاملے پر فریقین نے اپنی تجاویز نہ دیں تو عدالت اپنے ٹی او آرز پیش کرے گی، کیس کی سماعت 3 نومبر جمعرات تک ملتوی کردی گئی ۔

عمران خان ، سراج الحق ، شیخ رشید اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی درخواستوں پرجسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس امیرہانی مسلم، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے پاناما لیکس کی درخواستوں پر سماعت کی۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا تمام فریقین نے پاناما لیکس کے حوالے سے جواب جمع کرا دیا ہے؟ جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا کہ نیب کے سوا کسی بھی فریق نے جواب جمع نہیں کرایا۔

طارق اسد ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ حکمران ہم پر مسلط ہیں جب کہ نیب نے پاناما لیکس کے حوالے سے تحقیقات نہیں کیں جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکمرانوں کو ہم ہی نے منتخب کیا ہے جب کہ عدالت نے نیب کے جواب کو افسوسناک قرار دیا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے نیب پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ آپ نے معاملے کی تحقیقات کیوں نہیں کیں جب کہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کیا نیب کے پاس شواہد اکٹھے کرنے کا اختیار نہیں ہے، عوام شواہد ان کے پاس لے کر آئیں گے تو نیب کارروائی کرے گا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی نیب کے جواب پر اظہار برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیب نے روز مرہ کارروائی سے انحراف کیوں کیا؟ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بڑا واضح پیغام مل گیا ہے کہ کوئی ادارہ اپنا کام نہیں کرنا چاہتا، سپریم کورٹ اس کیس کو خود دیکھے گی۔وزیراعظم کی جانب سے سابق اٹارنی جنرل سلمان بٹ پیش ہوئے اور کہا کہ مجھے 5 روز قبل ہی وکیل مقرر کیا گیا ہے لہذا جواب جمع کرانے کے لئے مہلت دی جائے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پوری قوم کی نظریں پاناما لیکس پر لگی ہیں اس لئے آپ کو جواب جمع کرانا چاہیئے تھا، ہم سمجھیں گے کہ آپ کو جواب جمع کرانے میں دلچسپی نہیں، بادی النظر میں یہ معاملہ عوامی ہے اس لئے اس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو سکتی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 20 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے کیس 2 ہفتے میں لگانے کا فیصلہ کیا لیکن خبر لگی کہ عدالت نے کیس کی تاریخ پر نظر ثانی کردی، یہ سرخی کیسے لگی؟ میڈیا کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیئے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ پاناما لیکس پر آئینی درخواستوں کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے گی ۔عمران خان کے وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ اپریل میں پاناما کا معاملہ سامنے آیا، پاناما دستاویات میں میں اہم شخصیات کی آف شور کمپنوں کا بتایا گیا جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا کسی نے بھی پاناما دستاویزات پر اعتراض نہیں کیا؟ تو حامد خان نے جواب دیا کہ کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔

حامد خان نے کہا کہ یہ دستاویزات آئی سی آئی جے نے لیک کیں جن میں سیاست دانوں کے بینک اکانٹس کا ڈیٹا بھی شامل ہے جن کے مطابق موزیک فونزیکا نامی فرم آف شور کمپنیاں چلانے میں قانونی معاونت دیتی ہے ۔ ان دستاویزات میں نواز شریف کے بچوں مریم نواز، حسن نواز اور حسین نواز کے نام آئے ہیں جنہوں نے لندن میں جائیدادیں خریدیں۔ شریف فیملی نے پہلی آف شور کمپنی 1993میں رجسٹرڈ کرائی جبکہ ان کے ایک ہی عمارت میں 4 فلیٹس ہیں۔

حامد خان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے بچوں کی فرمز کا ویب سائٹ کے ذریعے علم ہوا تو عدالت نے پوچھا کہ نیلسن اور نیسکول کب بنائی گئیں جس پر حامد خان نے کہا کہ ایک ہی فلور پر 4 جائیدادوں کا ذکر کیا گیا ہے اور چاروں جائیدادیں 1993 سے 1996 کے درمیان بنائی گئیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال کیا کہ 1993 میں جائیداد کتنے کی خریدی گئی تو حامد خان نے جواب دیا کہ پانامہ لیکس میں جائیدادوں کی قیمت نہیں بتائی گئی۔

عدالت نے فریقین کے سامنے 3 آپشن بھی رکھ دیئے ہیں، پہلی آپشن یہ ہے کہ ہم بینک اکانٹس کے کھاتے خود کھولیں اور انہیں چیک کریں، دوسرا آپشن یہ ہے کہ تحقیقاتی ادارے اس معاملے کی تحقیقات کریں اور آخری آپشن یہ ہے کہ درخواست گزار اس معاملے پر ثبوت عدالت میں پیش کریں۔سپریم کورٹ نے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لئے حکومت اور فریقین کو مشاورت کیلئے 2 گھنٹے کا وقت دیتے ہوئے ایک بجے تک سماعت ملتوی کر دی۔

عدالت کی جانب سے دیئے گئے 2 گھنٹے کے وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وزیراعظم کے وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ وزیراعظم نے کمیشن کو تسلیم کر لیا ہے، وزیراعظم لندن جائیدادوں پر کمیشن کی تجویز سے متفق ہیں لیکن کمیشن کو جہانگیر ترین اور عمران خان کی بہن کا کیس بھی بھیجا جائے، اگر الزامات ثابت ہو گئے تو وزیراعظم قانونی نتائج کو تسلیم کریں گے جس پر تحریک انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ حکومت کمیشن کو جائیدادوں اور گوشواروں تک محدود کر رہی ہے۔

وزیراعظم کے وکیل کی جانب سے جواب جمع کرانے کے لئے زیادہ مہلت کی استدعا کی گئی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حکومت اور اپوزیشن ٹی او آرز کے معاملے پر نظرثانی کریں، پورے ملک میں ہیجان کی کیفیت ہے اس لئے پاناما معاملے کو زیادہ طول نہیں دے سکتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر دونوں فریقین کمیشن اور ٹی او آرز پر متفق نہیں ہوتے تو عدالت اپنے ٹی او آرز پیش کرے گی۔

عدالت نے سماعت پرسوں 11:30 بجے تک ملتوی کرتے ہوئے کمیشن کی تشکیل اور ٹی او آرز پر وزیراعظم سمیت تمام فریقین سے تحریری جواب طلب کر لیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگ اپنی سیاست جاری رکھیں، اب پاناما مسئلہ عدالت ہی حل کرے گی، ایک بھی دن ضائع نہیں کریں گے، انہوں نے کہا کہ کوئی حکم نہیں دے رہے لیکن بہتر سوچ کے لئے پر امید ہیں۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ لوگ 8 ماہ سے پش اپس لگا رہے ہیں، کیس کو زیادہ طول نہیں دیں گے، اب سب کو سخت موقف پر نظر ثانی کرنی چاہیئے۔قبل ازیں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ 2ہفتے سے اس کیس میں سنسنی پھیلائی جارہی ہے، ہر فریق کو موقف پیش کرنے کا موقع دیں گے ، تحریک انصاف ذمہ دارانہ رویہ اپنائے۔ ۔واضح رہے کہ تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان، امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے پاناما لیکس کے حوالے سے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں جب کہ گزشتہ سماعت کے موقع پر عدالت نے یکم نومبر تک وزیراعظم نواز شریف سمیت تمام فریقین کو جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

گذشتہ ماہ 20 اکتوبر کو ان درخواستوں پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن صفدر، بیٹوں حسن نواز، حسین نواز، ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر)اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کی تھی۔بعدازاں عدالت عظمی نے درخواستوں کی سماعت کے لیے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کی تھی، جبکہ درخواستوں کی سماعت کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ بھی تشکیل دے دیا گیا تھا۔