انگولا میں اسلام پر پابندی کی افواہیں

’انگولا کے حکام اسلام پر پابندی عائد کرنا چاہتے ہیں وہ مانتے ہیں یہ کوئی مذہب نہیں بلکہ فرقہ ہے ، ویب سائٹ پیغام

بدھ 19 اکتوبر 2016 10:51

انگولا( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔19اکتوبر۔2016ء )افریقی ملک انگولا میں اسلام پر پابندی کے حوالے سے غلط خبریں ایک بار پھر گرم ہو رہی ہیں لبرٹی از وائرل نامی ویب سائٹ پر لکھا گیا ہے کہ ’انگولا کے حکام اسلام پر پابندی عائد کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ ان کے مطابق یہ کوئی مذہب نہیں بلکہ فرقہ ہے۔ انگولا کے دارالحکومت کے قریبی علاقے زانگو میں ایک مسجد منہدم کیے جانے کی تفصیلات لکھیں۔

ریگن کوالیشن ڈاٹ کام کی رپورٹ میں لکھا گیا کہ ’جو کچھ افریقہ میں مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ کر رہے ہیں، وہی کچھ انگولا میں ہونے سے روکنے کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔‘امیریکا فرسٹ پیٹریاٹ نامی ویب سائٹ کے مطابق اب تک 80 مساجد مسمار کی جا چکی ہیں اور ’امریکہ کو انگولا سے ایک یا دو چیزیں سیکھ لینی چاہییں۔

(جاری ہے)

‘انگولا کے ایک مسلمان ایڈم کیمپس نے بی بی سی کو بتایا: ’درحقیقت یہاں مسلمان برادری میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔

‘تاہم انھوں نے بتایا کہ ’چند برس قبل ان کی مسجد بند کر دی گئی تھی، جب کہ دوسری چند مساجد مسمار کی گئی تھیں۔‘اسلام پر پابندی عائد کیے جانے کی غلط فہمی یہیں سے پیدا ہوئی۔ ایڈم کے بقول یہ مساجد اس لیے مسمار کی گئی تھیں کیونکہ حکومت کا کہنا تھا کہ ان کی تعمیر کے لیے اجازت نہیں لی گئی تھی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام مساجد بند نہیں کی گئیں بلکہ وہ دوسری مساجد میں جاتے ہیں حالانکہ بعض لوگ بند کی گئی مساجد کے باہر ہی نماز ادا کرتے ہیں۔

ایڈم نے بتایا: ’انگولا میں اسلام پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن ہمیں بھی دوسری اقلیتیوں کی طرح مسائل کا سامنا ہے کیونکہ ہمیں حکومت نے تسلیم نہیں کیا۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس وقت حالات پرسکون ہیں اور امید ہے کہ ایسے ہی رہیں گے۔‘انگولا میں اسلام پر پابندی کی افواہ جنوبی افریقہ کے اخباد ڈیلی میورِک نے پھیلائی تھی۔ اسکے بعد کئی اخباروں نے انگولا کے وزیرِ ثقافت روزا کرزے سلوا کے حوالے سے بتایا کہ تاحکمِ ثانی مساجد بند رہیں گی۔

وہ بات جس نے اس خبر کو مزید تقویت دی یہ تھی کہ ایک گروہ کی جانب سے مسلمانوں کو تسلیم کیے جانے کی درخواست حکومت نے رد کر دی۔لیکن یہ بات حکومت کے اسلام مخالف رویے کے ثبوت کے لیے کافی نہیں ہے کیونکہ ملک میں کئی دوسری اقلیتیں بھی ہیں جنھیں تسلیم نہیں کیا گیا۔ایک امریکی رپورٹ کے مطابق اس سال دو مساجد بند کروائی گئیں لیکن اسی دوران 52 چرچ بھی بند کیے گئے۔

اس لیے یہ مسلمانوں کے خلاف ہدف بنا کر کیا گیا اقدام معلوم نہیں ہوتا۔سائٹ کا کہنا ہے کہ ’آپ نے شاید نہ سنا ہو کہ صدر اوباما یہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں کہ انتہاپسند اسلام امریکہ کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ اوباما چاہتے تھے کہ لوگوں کو یقین دلایا جائے کہ اسلام کو امریکہ میں خوش آمدید کہا جاتا ہے اور یہی خیالات ہلیری کلنٹن کے ہیں۔‘