حکومت کا پی ٹی آئی کے ا حتجاج کو کچلنے کا فیصلہ

وفاقی پولیس کو لاٹھی چارج،شیلنگ،ربڑ گولیوں کی فائرنگ ،پکڑ دھکڑ سمیت خصوصی ٹریننگ دینے کے احکامات صبح سے شام تک مختلف پلاٹونوں کی صورت میں انتہائی خطرناک ٹریننگ شروع وکلا اور صحافتی تنظیموں نے پرامن احتجاج پر حکومتی حملہ کو احمقانہ فیصلہ قرار دیا

بدھ 19 اکتوبر 2016 11:02

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔19اکتوبر۔2016ء)پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے پانامہ لیکس کے خلاف وفاقی دارالحکومت میں جمہوری احتجاج کے حق کو ریاست نے کچلنے کے لیے حتمی فیصلہ کر لیا ہے ۔وفاقی پولیس کو لاٹھی چارج،شیلنگ،ربڑ گولیوں کی فائرنگ ،پکڑ دھکڑ سمیت خصوصی ٹریننگ دینے کے احکامات دیدئیے گئے ہیں۔پولیس لائن میں روزمرہ کی بنیاد پر صبح سے شام تک مختلف پلاٹونوں کی صورت میں انتہائی خطرناک ٹریننگ شروع کرا دی گئی ہے ۔

جبکہ دوسری جانب وکلا اور صحافتی تنظیموں نے پرامن احتجاج پر حکومتی حملہ کو احمقانہ فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں کوئی ایسا اقدام نہ کر جائے کہ جمہوریت ہی خطرہ میں پڑ جائے ۔ خبر رساں ادارے کو پولیس ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وفاقی پولیس کے اعلیٰ افسران کی جانب سے تمام تھانوں ، ڈی پی ڈی ،ریزروحتیٰ کہ سویلن پولیس ملازمین کو بھی پولیس لائن میں ایک خصوصی ٹریننگ دی جارہی ہے جس میں انہیں شیلنگ،ہوائی فائرنگ،خوف و ہراس پھیلانے کے طریقہ کار،راستوں کی بندش،لاٹھی چارج،اہم شخصیات کی پکڑ دھکڑ سمیت دیگر کارکنان کی گرفتاریوں کے لیے جدید طریقہ کار پر ایک ہفتہ پر محیط ریہرسل کرائی جارہی ہے اور اس ٹریننگ کو پولیس نے (اینٹی رائٹس ڈرل کورس) کا نام دیا ہے ،معلومات کے مطابق ایسے کورس اس وقت ایمرجنسی کی صورت میں کرائے جاتے ہیں جب کسی بھی ریاست کے ادارے کو دشمن سے شدید خطرات لاحق ہوں ،ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈی پی ڈی ڈویژن سمیت تمام تھانوں کی پولیس کو تیار کیا جارہا ہے کہ وہ اچانک کیسے حملہ آور ہونگے اور کس انداز سے ہجوم کو منتشر کریں گے۔

(جاری ہے)

خبر رساں اداریجو معلومات اکٹھی کی ہیں پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کو روکنے کے لیے ڈائریکٹ وزیر اعظم ہاوس کی جانب سے ہدایات جاری ہوئی ہیں بتایا گیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ کے اندر کچھ جمہوری روایات کے امین رہنماؤں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف سے پرامن مذاکرات کا سلسلہ ایک بار پھر شروع کرے اور ایسے ٹی او آرز بنائے جائیں جو کہ دونوں جماعتوں کو ہی پسند ہوں ۔

لیگی رہنماؤں نے حکومت کو کہا ہے کہ طاقت کے بل بوتے پر اگر پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے و احتجاج کو کچلنے کی کوشش کی گئی تو پھر ایک اسلام آباد نہیں بلکہ پورے ملک میں دھرنے اور حکومت مخالف ایک تحریک چل پڑے گی اور بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف بھی یہی چاہ رہی ہے کہ انکے دھرنے کو طاقت کے بل بوتے پر کچلا جائے تاکہ وہ حکومت کے مخالف عوامی ہمدردیاں لے سکے۔

پاکستان تحریک انصاف کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت کی جانب اگر کسی بھی صورت میں احتجاج کو روکنے کی کوشش کی گئی تو وہ اسے مہنگی پڑے گی ،نیچے ڈنڈااور اوپر جھنڈا کے علاوہ بھی ایک ایسی فورس بنائی جارہی ہے جو کہ شلٹر گروپ ہو گی اور وہ کسی بھی ریاستی تشدد کے سامنے سینہ سپر ہو کر انکے ہر ظلم کو برداشت کر ے ۔اس حوالے سے خبر رساں ادارے نے مقتدر حلقوں سے موقف جاننے کی کوشش کی تو سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اشرف گوجر نے کہا کہ کسی بھی جمہوری جماعت کا احتجا ج ان کا آئینی حق ہے تاہم ان کا تعلق بھی پاکستان مسلم لیگ سے وہ مشورہ یہ دے سکتے ہیں کہ کوئی ایسا اقدام نہ اٹھایا جائے جس سے ملک اور جمہوریت کو نقصان پہنچے۔

حکومت کو ایسی حکمت عملی اپنانی چاہیے جس سے انکے اقدام کو ملک بھر سراہا جائے اور عوامی ہمدردیاں حاصل کر سکے مگر وہ نہیں سمجھتے کہ طاقت کے زور پر عوامی احتجاج کو کچل پائے گی بلکہ اس سے پی ٹی آئی عوامی ہمدردیاں حاصل کر لے گی ۔سابق سینٹر اور ایڈووکیٹ سپریم کورٹ سید ظفر علی شاہ نے کہا ہے کہ پرامن احتجاج ہر جمہوری جماعت کا آئینی حق ہے جس کے خلاف کوئی بھی ریاستی مشینری استعمال نہیں کی جا سکتی ہاں البتہ احتجاج سے اگر دیگر عوام متاثر ہو رہی ہو تو پھر حکومت منتشر کرنے کی پالیسی بناتی ہے ۔

راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلٹس کے صدر علی رضا علوی نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ جمہوریت کا حسن ہے کہ جمہوری انداز میں احتجاج ہو ،حکومت اگر اپنے ریاستی ستونوں کو استعمال میں لائے گی تو خطرہ ہے کہ جمہوریت ہی خطرہ میں پڑ جائے اور ہم سب جمہوریت کو ترستے رہ جائیں دوسری جانب انہوں نے کہا ہے کہ صحافی کے حقوق جہاں بھی سلب کیے جائیں گے وہاں ہمارا احتجاج ہو گا جب تک صحافیوں کے حقوق محفوظ ہیں تو پھر ہم متحرک ہو جائیں گے ،پولیس ریہرسل کے حوالے سے آئی جی اسلام آباد طارق مسعود یاسین سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ وزارت داخلہ میں ایک اہم میٹنگ میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے بات نہیں ہو سکتی ہے ۔